ٹیڑھا نظام – اعظم الفت

579

ٹیڑھا نظام

تحریر: اعظم الفت

دی بلوچستان پوسٹ

پولیس کی حراست میں مشتبہ افراد کے ساتھ تشدد، نقصان دہ بدسلوکی اور دیگر ناروا سلوک پاکستان میںایک وسیع مسئلہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس کی تفتیش کا طریقہ کار ظالمانہ اور پرتشدد کیوں ہے اور پولیس تفتیش کے دوران غیر انسانی کیوں ہو جاتا ہے؟ ظالمانہ نظام میں ہی مشتبہ افراد کو اعتراف جرم پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے، ہمارے پاس تفتیش کا جامع طریقہ کار کیوں نہیں ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ حراست میں مارنا، مبینہ ملزمان کے کپڑے اتار دینا تقریباً معمول کی بات ہے۔ آج کل عدالتی حراست میں ویڈیو بنانا بھی عام ہو گیا ہے۔ اکثر سلاخوں سے ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں جو تفتیشی افسروں کی طرف سے کی جانے والی غیر انسانی اور بربریت کے خوفناک داستانوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر شائع جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہ صرف مونگ پھلی ہے، زیادہ تر مشتبہ افراد اور متاثرین کے اہل خانہ اصل کہانیاں بتانے سے گریز کرتے ہیں۔

محکمہ پولیس یا پولیس کی کالی بھیڑیں اکثر ملزمان کو اعتراف جرم یا دیگر معلومات حاصل کرنے، رشوت لینے کے لیے یا بااثر لوگوں کے دباو¿ کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ لاٹھیوں اور چمڑے کی پٹیوں سے حراست میں مارنا، قیدیوں کی ٹانگوں کو دھاتی سلاخوں سے کھینچنا اور کچلنا جنسی تشدد، نیند کی کمی، اور ذہنی اذیت سے ایک انسانی جان پردیرپا اثرات کے علاوہ جسمانی درد، معذوری اور ذہنی تناو¿ جیسی کیفیت رہتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے کرمنل پروسیجر کوڈ (ppc) کے تحت، پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بغیر وارنٹ کے کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتا ہے، جس پر بعض قسم کے مجرمانہ جرائم میں ملوث ہونے یا متعلقہ ہونے کا معقول شبہ ہو یا جس کے خلاف کوئی معقول شکایت یا قابل اعتماد معلومات موجود ہو۔ ملوث. پولیس بغیر وارنٹ کے کسی ایسے شخص کو بھی گرفتار کر سکتی ہے جس پر انہیں شبہ ہے کہ وہ مخصوص قسم کے جرائم کے ارتکاب کے لیے تیار ہے۔ بہت سے خاندانوں کی طرف سے پولیس پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اگر وہ پولیس کے ساتھ بدسلوکی کی شکایات جاری رکھیں گے تو پولیس نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے سے گریز نہیں کرتی ہے۔

حال ہی میں شبانہ ارشاد نامی لیڈی پولیس انسپکٹر کو ملازمت سے برطرف کیا گیا، ان کے خلاف اعلیٰ سطحی انکوائری کی گئی اور پی ایس پی کیڈر کی سینئر پولیس افسر شبانہ ارشاد کی روشنی میں انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ معاملے کے حوالے سے رپورٹ بھی جاری کر دی گئی ہے اور رپورٹ کے مطابق لیڈی انسپکٹر کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ شبانہ ارشاد کو ایک مشتبہ شخص سے پوچھ گچھ کا ٹاسک دیا گیا جس پر جناح ٹاو¿ن تھانے میں ایک نوجوان لڑکے کے قتل کے الزام میں دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دوران تفتیش سوتھل نامی ملزم کو پانچ سے چھ خواتین کی موجودگی میں کپڑے اتارے گئے۔ پولیس کانسٹیبل کو بھی ملازمت سے معطل کر دیا ہے، اس نے ملزم کو ڈانس کرنے پر مجبور کیا اور موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بنا لی، بعد ازاں ویڈیو وائرل ہونے پر پولیس اہلکاروں کو کارروائی کرنی پڑی۔ سوال یہ ہے کہ پولیس نااہلی، پیشہ ورانہ مہارت کی کمی اور بدعنوانی کے علاوہ انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے لیے کیوں بدنام ہے؟ ایک ایسے صوبے میں جہاں نظم و نسق کے مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں، پولیس کے خلاف عوامی عدم اطمینان — جس کا ثبوت یہ ہے کہ شکایات، میڈیا میں کثرت سے ملتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں