نوشت میگزین کی افادیت اور اہمیت ۔ ظہیر بلوچ

442

نوشت میگزین کی افادیت اور اہمیت

تحریر:ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بلوچستان کی ایک متحرک طلباء تنظیم ہے۔ جس کے قیام کا مقصد بلوچ طالب علموں کی سیاسی تربیت کرکے انہیں بلوچ معاشرے میں ایک باشعور سیاسی رہنماء کی حیثیت سے متعارف کرانا ہے۔ تنظیم اپنے قیام سے لے کر آج تک مختلف پلیٹ فارم کو استعمال کرکے اپنے قومی فرائض کی تکمیل کا کام سر انجام دی رہی ہے۔

تنظیم نے بلوچ معاشرے اور خاص کر بلوچ طالب علموں کی سیاسی اور تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تنظیمی میگزین کے اجراء کا فیصلہ کیا جسے “نوشت” کا نام دیا گیا اور باقاعدہ 2020 میں نوشت میگزین کی پہلی اشاعت کی گئی۔

پہلی اشاعت کے بعد نوشت تسلسل کے ساتھ شائع ہورہی ہے. جو تنظیم کی جانب سے لٹریچر کی اہمیت سے واقف ہونے اور بلوچ سیاسی طالب علموں کی تربیت کے لئے اہم کاوش ہے جسے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو سراہنا چاہئیے۔

نوشت کی اہمیت و افادیت پر اگر بات کی جائے تو سب سے اہم بات نوشت کی بلوچ قومی زبانوں “بلوچی اور براہوئی” میں اشاعت ہے۔ بلوچ سیاسی تاریخ کا اولین سیاسی میگزین ہے جس کی مکمل اشاعت قومی زبانوں میں ہوئی ہے.

قومی زبان کی اہمیت کے متعلق فواد عثمان ڈائریکٹر سدھار ” ارشاد احمد مغل،، کی کتاب انسان، آزادی اور تعلیم کے پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ جس نظام تعلیم کے ضمیر میں ماں بولی اور اپنی روایات، فن اور بنیادی انسانی اقدار کی جاگ نہ لگی ہو، وہ نیم حکیموں کے کشتے اور معجونیں تیار کرسکتا ہے، مگر روح کی بالیدگی ونمو کے لئے ایک قطرہ پانی تخلیق کرنے کی قدرت نہیں رکھتا.

بی ایس او کی 54 سالہ سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالیں تو یہ بات نظر سے گزرتی ہے کہ بلوچ سماج میں جتنے بھی بی ایس او بنے سب نے قومی زبان بلوچی اور براہوی کی جگہ اردو اور انگریزی زبان کو اس بنیاد پر ترجیح دی کہ بیشتر طالب علم بلوچی یا براہوی نہیں پڑھ سکتے اس لئے ہمیں اردو کو اپنانا چاہئیے. اس لئے سیاسی لٹریچر میں قومی زبان سے زیادہ اردو پر انحصار کیا گیا.

بلوچ سیاسی تاریخ میں بی ایس او کی جدوجہد اور قربانیوں سے کوئی شعوری انسان انکار نہیں کرسکتا لیکن بی ایس او اپنے آئین کے اغراض و مقاصد میں واضح کرتی ہے کہ بلوچی و براہوی زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے جدوجہد کریں گی لیکن عملی طور پر بلوچی و براہوی زبان میں سیاسی میگزین کی اشاعت کے بجائے اردو اور انگریزی کو زیادہ ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے بلوچ طالب علموں کا انحصار انگریزی اور اردو پر ہوا اور طالب علموں نے مادری زبان کے بجائے اردو اور انگریزی کواہمیت دی. اس کے منفی اثرات یہ سامنے آئے کہ آج تک کوئی بھی سیاسی میگزین مادری زبان میں شائع نہیں ہوئی اور مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علم اردو اور انگریزی سے متاثر ہوئے جو ایک منفی رحجان تھا.

لیکن بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو مد نظر رکھ کر حکیمی کشتے فروخت کرنے کے بجائے تمام روایات کو پس پشت ڈال کر سیاسی میگزین کو قومی زبان میں شائع کرواکے ایک نیا اقدام اٹھایا جو کہ قابل تحسین ہے.

نوشت کی مسلسل قومی زبان میں تیسری اشاعت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ طالب علم نوشت میگزین کو دلچسپی کے ساتھ پڑھ کر اپنی سیاسی تربیت بھی کررہے ہیں.

نوشت کی پہلی اور دوسری میگزین مختلف موضوعات پر شائع کی گئی ہے جس کے عنوانات میں طالب علموں کے لئے بہترین مواد موجود ہے جبکہ حال ہی میں شائع ہونے والی تیسری اشاعت کے تمام مواد بلوچ تاریخ کے اہم موضوع پر تحریر کی گئی ہے. جس سے بلوچ طالب علموں سمیت سیاسی میگزین میں دلچسپی رکھنے والے دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ کرنے کا باعث ثابت ہوگی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نہ صرف بلوچ طالب علموں کی توجہ اس جانب مبذول کرا رہی ہے کہ وہ اپنے مادری زبان میں مطالعہ اور تحریر کریں بلکہ وہ طالب علموں کو بلوچ تاریخ پر سیاسی میگزین بھی مہیا کررہی ہے۔

تنظیم کا سیاسی میگزین کو مادری زبان مین میں شائع کرنا نہایت ہی احسن اقدام ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اس کے بلوچ سیاسی مستقبل کے لئے نہایت ہی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
میں بحیثیت ایک بلوچ طالب علم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی قیادت سے درخواست کرتا ہو کہ نوشت کی اشاعت کے تسلسل کو جاری رکھیں اور سخت سے سخت حالت میں بھی اس تسلسل کو جاری رکھیں کیونکہ بلوچ سیاست اور بلوچ سیاسی طالب علموں کو سیاست میں متحرک کرنے پر نوشت میگزین اہم اہمیت کا حامل ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں