مزاحمت علاج غلامی ہے – سفیر بلوچ

699

مزاحمت علاج غلامی ہے

تحریر: سفیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظلم کی آگ میں جھلستے بلوچستان کے عوام ظلم و جبر کی تاریک راتوں کا سامنا کررہے ہیں. اس سرزمین پر جب سے قبضہ ہوا ہے اس سرزمین کے باسی اندھیرے میں زندگی گزار رہے ہیں. ہر روز نت نئے مسائل سے نبرد آزما عوام ماضی کی طرح آج بھی اس قہر کے خلاف سینہ سپر ہیں اور مزاحمت کررہے ہیں. نہ ظلم کے خلاف بلوچ عوام نے سر جھکایا اور نہ ہی مزاحمت کے راستے کو ترک کیا کیونکہ مزاحمت ہی زندگی ہے اور مزاحمت ہی آزادی کی بنیاد رکھنے کا آلہ ہے.

لاپتہ افراد بلوچستان کا ایک اہم مسئلہ ہے جو گذشتہ پندرہ سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے. ان پندرہ سالوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو لاپتہ کرکے اذیتیں دی گئیں، مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں اہلخانہ کو دی گئی. سی پیک کے نام پر بلوچ عوام کو جبری نقل مکانی، گمشدگی، فوجی آپریشن کا تحفہ دیا گیا. جس سی پیک کو لیکر پاکستانی میڈیا میں ترقی ترقی کا راگ الاپ کر عوام کو گمراہ کیا گیا وہ ترقی آج چیخ چیخ کر پاکستانی جرائم کا ثبوت پیش کررہی ہے.

کہتے ہیں کہ ایک مقبوضہ ملک میں ترقی کا منصوبہ دراصل ترقی کا منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کا حربہ ہوتا ہے اور انہیں منصوبے کے ذریعے دوہری مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے. پہلا مفاد نو آبادیاتی ملک اپنے عوام یا اپنے ملک کی بہتری کے لئے سوچتا ہے اور دوسرا مفاد قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے. آج پاکستان انہی دوہری پالیسیوں پر بلوچستان میں گامزن ہے.

طالب علموں کی جبری گمشدگی یا مختلف حربوں سے پریشان کرنے کا عمل بھی جاری و ساری ہے. گذشتہ چند مہینوں میں مختلف علاقوں سے درجن بھر بلوچ طالب علموں کو ان کے گھر سے یا ہاسٹل سے اٹھا کر جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا. جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرپرسن صبحیہ بلوچ کے بھائی شاہ میر بلوچ اور کزن مرتضی بلوچ(جنہیں حال ہی میں بازیاب کیا گیا.) بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم سہیل بلوچ اور فصیع بلوچ کو یونیورسٹی ہاسٹل سے خفیہ کیمروں کے سامنے سے نامعلوم افراد اٹھا کر لے جاتے ہیں. بلوچستان یونیورسٹی جو ایک فوجی کیمپ کا منظر پیش کرتی ہے، درجنوں خفیہ کیمروں کے سامنے نامعلوم افراد کا داخل ہونا حیران کن بلکہ سیکورٹی والوں کے لئے شرمناک ہے.

سہیل بلوچ اور فصیع بلوچ کے لیے طالب علم پندرہ دنوں سے سراپا احتجاج ہے. کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے طالب علم کلاسز کا بائیکاٹ کررہے ہیں لیکن انتظامیہ دروغ پر دروغ بازی کا مظاہرہ کرکے اپنے نمک حلالی پر لگے ہوئے ہیں.

بلوچستان کے طالب علموں کی اظہار یکجہتی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بلوچستان کے عوام بشمول طالب علم اس قہر و جبر سے نفرت کرتے ہیں اور آج اس کے خلاف بھرپور اظہار کررہے ہیں. بلوچستان کا اصل مسئلہ بلوچ قومی بقاء و تشخص کا مسلہ ہے. جب تک یہ مسلہ موجود ہے سطحی مسلے کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو کر ذہنی پریشانی کو بڑھاوا دیتے ہیں جن میں جبری گمشدگی سر فہرست ہے. طالب علموں کا یہ یکجہتی و حوصلہ قابل دید ہے. اگر ریاست ان طالب علموں کے مطالبات پورے نہیں کرتی تو طالب علموں کو چاہیے کہ احتجاج کو مذید وسعت دیں کیونکہ یہ ریاست ہمیں پڑھنے نہیں دیگا بلکہ اس احتجاج کے ختم ہونے کے بعد کسی اور طالب علم کو لاپتہ کرے گا اس لیے احتجاج کو وسعت دیں اور پورے بلوچستان کے اتحاد کو یکجہتی کی طاقت سے تمام سرگرمیوں کے لئے بند کریں کیونکہ وقت و حالات کا تقاضہ یہی ہے.

گوادر کا احتجاج دس دنوں سے جاری ہے جن کے مطالبات جائز ہیں لیکن سی پیک منصوبے کا مرکز ہونے کے باوجود ریاستی ادارے صرف دھونس و دھمکی کا سہارا لے رہے ہیں.

گوادر میں دھرنے کے شرکاء بھی احتجاج کو مزید وسعت دیں اور پورے بلوچستان سے سیکورٹی فورسز کے انخلاء کا مطالبہ کریں کیونکہ جب تک فورس بلوچستان میں موجود رہے گی، یہ مسائل موجود رہیں گے.

موجودہ وقت ہی بلوچستان کے مسائل کو آشکار کرنے اور جدوجہد آزادی کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے. بلوچستان سمیت مختلف شہروں اور مختلف ممالک جہاں بلوچ آباد ہے طالب علموں کے دھرنے اور مولانا ہدایت الرھمن کے دھرنے کی حمایت کے لئے اپنے اپنے شہروں میں احتجاجی مظاہرے تشکیل دیں کیونکہ یہ دونوں پروگرامز بلوچ قوم کے بہتر مستقبل کی جدوجہد ہے. ان کی حمایت کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہےبلکہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں