مستونگ کے علاقے کانک سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری بعد جبری گمشدگی کا شکار شعبہ قانون کے طالب علم شفیع اللہ بلوچ کے لواحقین نے کہا کہ بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گمشدگی جیسے سنگین مسئلے کا سامنا ہے، بلوچستان میں ایک پوری نسل جبری گمشدگی کا سامنا کرتے ہوئے گزرا مگر لاپتہ کرنے والوں کا پیاس اب تک نہیں بجا ہے اور گمشدگی کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
شفیع اللہ کے لواحقین نے اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے کیلئے آپ کو کسی جرم میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک اچھا انسان ایک بلوچ اور پڑھا لکھا نوجوان ہونا ہی کافی ہے بجائے اس کے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور اس میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں جہاں لاپتہ افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے اور نوجوانوں کی گمشدگیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے بلورچ نوجوان ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں اب تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں جہاں سے طالب علموں کو اٹھایا جارہا ہے۔
شفیع اللہ کے لواحقین کے مطابق ان ہی گشدہ افراد میں ہمارا نوجوان اور طالب علم شفیع اللہ بھی شامل ہے جنہیں ایف سی نے 18 اگست کو نوشکی سے کوئٹہ آتے ہوئے مستونگ چیک پوسٹ سے لا پتہ کیا تھا جن کا تاحال کوئی اتا پتہ نہیں ہے جس کے بعد ہم سب تکلیف اور درد میں ہیں جسمانی اذیت کا سامنا صرف شفیع اللہ کر رہے ہیں مگر بے چنی طور پر ہم سب اس درد میں جی رہے ہیں جب کسی گھر سے نو جوان بچہ لاپتہ ہوجائیں تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس گھر کی صورتحال کیا ہوگی ۔
انہوں نے کہا ہے کہ شفیع اللہ کے بغیر پورے گھر میں ماتم کا سماء ہے اور سب کے سب پورے دن اس کی یاد میں کھوئے رہے ہیں گھر کا کاروبار سب کچھ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ہمیں مسلسل یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ہمارے لاپتہ شفیع اللہ جان کو بازیاب کیا جائے گا مگر تین مہینے ہونے کو ہیں اب تک انہیں بازیاب نہیں کرایا گیا ہے جو ہمارے لیے باعث تشویش ہے اور جس کی وجہ سے ہمارے گھر کی خوشیاں بھی چھن گئی ہیں ۔
انکا کہنا تھا ہم نے بہت انتظار کی ہے مگر یہ انتظار دن بدن طول پکڑتا جار ہا ہے ان تمام دنوں میں گھر کے تمام افراد نے سنگین اذیت برداشت کی ہے جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ شفیع اللہ بلوچ کی خاطر ہم 7 نومبر بروز اتوار 2 بجے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کرینگے اس احتجاج کے ذریعے حکام بالا اور حکمرانوں کواپنے گھر کی فریاد پہچانا چاہتے ہیں تا کہ شفیع اللہ کی بازیابی میں کردار ادا کرسکیں۔
لاپتہ طالب علم کے لواحقین نے بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے اس احتجاج میں شرکت کر کے ہماری آواز بنیں کیونکہ جبری گمشدگی کا مسئلہ صرف ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے ہم سے پہلے ہزاروں گھروں میں یہ درد موجودتھا اب ہمارا گھر بھی اسی اذیت سے گز رہا ہے اگر ہم نے اجتماعی طور پر جبری گمشدگی کے خلاف آواز نہیں اٹھایا تو کل آپ کا گھر بھی اس اذیت سے گزر سکتا ہے اس لیے آپ تمام افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ شفیع اللہ جان کی بازیابی کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں ۔