طالب علموں کو لاپتہ کرنے کا مقصد تعلیمی تسلسل میں رکاوٹیں حائل کرنا ہے – طلبہ کی پریس کانفرنس

270

بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہونے والے طالب علموں کی بازیابی کے لئے طالب علموں کا احتجاج جاری ہے۔

آج طلبہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ہفتے 1 نومبر کو جامعہ بلوچستان کے احاطے سے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جامعہ بلوچستان کے احاطے سے جبری طور لاپتہ کیا گیا اور تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جامعہ بلوچستان سے طالبعلموں کو لاپتہ کرنے کا مقصد تعلیمی تسلسل میں رکاوٹیں حائل کرنا ہے او مذکورہ دونوں طالبعلموں کی جبری گمشدگی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ کے احاطے سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی کے خلاف گذشتہ ہفتے سے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا جارہا ہے اور جامعہ کے انتظامیہ سے طالبعلموں کے بازیابی اور منظر عام پر لانے کی اپیل کی گئی جس پر انتظامیہ نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کا عملی اقدام بروئے کار نہیں لائی۔ جامعہ کے طالبعلموں کی جانب سے انتظامی بے حسی اور طالبعلموں کو منظر عام پر نہ لانے کے خلاف مجبور ہو کر جامعہ بلوچستان کو تمام قسم کے سرگرمیوں کےلیے بند کر دیا گیا۔ جامعہ کو بند کرنے کے باوجود جامعہ وائس چانسلر اور دیگر انتظامی عہدیدار تاحال اپنے ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبعلموں کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اس سخت سردی میں جاری ہے۔ جہاں ایک جانب جامعہ انتظامیہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے وہیں طالبعلموں سے مذاکرات کےلیے کوئی حکومتی نمائندہ نہیں آیا ہے۔ صوبائی حکومت اور جامعہ انتظامیہ دونوں اس حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ تمام اداروں کی جانب سے طالبعلموں کی شنوائی نہ کرنا اور ہمارے مطالبات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا نہایت ہی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاجی مظاہرہ اس سخت ترین سردی میں دوسری رات میں داخل ہو چکا ہے اور تاحال کسی بھی مقتدر قوت نے ہم تک رسائی نہیں کی اور ہمارے مطالبات سننے سے گریزاں رہے۔ ہمارا مطالبہ جامعہ بلوچستان کے احاطے سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو منظر عام پر لایا جائے اور گمشدگی میں ملوث جامعہ کے عہدیداران کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ جامعہ انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کل بروز جمعرات کوئٹہ بھر کے تعلیمی اداروں کا بند کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور اگر کل تک ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہم اپنے احتجاجی مظاہرے میں مزید وسعت اور شدت لائیں گے۔

خیال رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں زیر تعلیم سہیل بلوچ اپنے ایک اور ہم جماعت فصیح بلوچ کے ہمراہ یکم نومبر سے لاپتہ ہے۔

دونوں طالب علموں کی گمشدگی کے خلاف یونیورسٹی کے طلبا نے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں بلکہ مڈ ٹرم امتحانات بھی نہیں ہوسکے۔

طلبا کے احتجاج کے باعث یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کیا گیا ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے طلبا کے احتجاج کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے 10 نومبر سے تمام تعلیمی سرگرمیاں بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چند ناگزیز وجوہات کی بنا پر جامعہ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو تاحکم ثانی بند رہے گی۔

مزید کہا گیا کہ جامعہ کے تمام طے شدہ امتحانات بھی ملتوی کیے جارہے ہیں تاہم ہوسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے حوالے سے الگ سے نوٹیفکیشن جاری کیاجائے گا۔

دونوں طلبہ  کے لاپتہ ہونے کےخلاف مقدمہ سریاب تھانے میں فصیح اللہ اور سہیل کے بھائیوں کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں نامعلوم افراد کے اغوا کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ 

پولیس نے مدعی کی درخواست پر دفعہ 365 ت پ کے تحت سہیل اور فصیح اللہ کے اغوا کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔