صرف گوادر نہیں پورا بلوچستان
تحریر: زرینہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان ساحل وسائل سے مالا مال ہے لیکن بلوچستان میں آج بھی بلوچوں کے گھروں کے چولہے بارڈر اور سمندر کی وجہ سے جلتے ہیں۔ سمندر اور بارڈر کے زریعے محنت مزدوری کرکے لوگ دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو بارڈر جانے سے روکا جاتا ہے سمندر میں شکار کرنے کی اجازت نہیں۔
دوسرے صوبوں کے لوگ آ کر بلوچوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کدھر جا رہے ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ پچھلے کئی سالوں سے چیک پوسٹوں پر یہی سوال بلوچوں سے پوچھے جارہے ہیں لیکن اب حد ہوگئی ہے سمندر کے آس پاس اگر کوئی شہری جاتا ہے تو اُس سے یہی سوال کی جاتی ہے کدھر جا رہے ہو؟ سمندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو سمندر میں جانے سے روکا جاتا ہے اور باہر کے لوگوں کو شکار کرنے دیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟
چھ دنوں سے گوادر میں لوگ دھرنا دے رہے ہیں لیکن کوئی نہیں انکے مطالبات سُنے والا ۔ گوادر کے بچے نوجوان بوڑھے سب اس امید کے ساتھ دھرنا دے رہے ہیں کہ شاید ہمیں ہماری شناخت مل جائے ہم سے صبح اور شام یہ سوال نا کیا جائے کہ کدھر جا رہے ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ ہمیں سکون کے ساتھ بارڈر جانے دیں اور سمندر میں شکار کرنے دیں تاکہ ہم بھی دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔
یہ ظلم کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے لیکن سب آواز اُٹھانے سے ڈرتے تھے۔ ایسا نا ہو کہ ہمیں یا ہمارے خاندان کو کچھ کر دیں لیکن اب سب بیدار ہوچکے ہیں روز روز کے ڈر ڈر کے جینے سے اب سب میں شعور اور جذبہ پیدا ہوچکا ہے سب اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
بات آتی ہے ملانا ہدایت الرحمن کی، اسکا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اس لیے کچھ لوگ اس بات کو سیاسی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید مولانا خود کو ہیرو بنانا چاہتا ہے یا پارٹی کا نام بڑھانا چاہتا ہے یا کچھ اور۔ ان سب باتوں کو ایک طرف رکھ دیں صرف بلوچستان کے لوگوں کو دیکھ لیں جو دھرنے میں بیٹھے ہیں انہیں دیکھ لیں وہ سب کیا چاہتے ہیں وہ سب کس لیے دن رات دھرنا دے رہے ہیں؟ کیونکہ بات صرف بارڈر اور سمندر کی نہیں ہماری شناخت کی ہے ہمارے لاپتہ بھائیوں کی ہے،جعلی مقابلے میں قتل ہونے والوں کی ہے ،جزبات میں آ کر حیات مرزا جیسے بے گناہ کو قتل ہونے کی ہے ۔ بات تاج بی بی اور ملکناز جیسے ماؤں کو بغیر کسی جرم کی شھید کرنے کی ہے۔ اسکول و کالجز اور یونیورسٹیوں سے طلباہ کو لاپتہ کرنے کی ہے۔ چھوٹے بچوں کی کھیلنے کی عمر میں شھید ہونے کی ہے۔ چادر و چار دیواری کی پامالی کرنے کی ہے اور عورتوں کی ساتھ جنسی ذیادتی کی ہے۔
کئی سالوں سے مسنگ کیمپ میں بیٹھے ہوئے ماما قدیر اور ماں بہنوں کی، سرد راتوں میں یونیورسٹی کے باہر سڑکوں پر بیٹھے ہوئے اپنے لاپتہ دوستوں کی بازیابی کیلے احتجاج کرنے والوں کی کس کس ظلم کی بات کریں ہم؟
میں لکھنے سے اور آپ لوگ پڑھنے سے تھک جاؤ گے لیکن یہ ظلم کی داستان ختم نہیں ہوگی۔ اگر اب بلوچستان کے لوگ ایک ساتھ ایک آواز بن کر ایک ساتھ کھڑے نا ہوئے تو ظلم کے خلاف تو کھبی بھی ان مسئلوں سے نکل نہیں پاؤ گے پھر شاید ایسا موقع نہ ملے۔میں یہ کھبی نہیں کہونگی کہ مولانا کو اپنا ھیرو سمجھو اس پھر بروسہ کرو لیکن خود کو ھیرو بناؤ خود پر بھروسہ کرو اپنے حق کیلے آواز اُٹھاو اپنے حق کیلے لڑنا اور بولنا سیکھ لو ابھی بھی وقت ہے اگر ہم ہمت کرکے ایک ساتھ ایک آواز بن جائیں تو ریاست مجبور ہوکر ہمارے مطالبات ضرور سنے گی۔ کیونکہ ایک انسان کچھ نہیں کرسکتا لیکن ایک ساتھ سب ملکر کچھ نا کچھ، بلکہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
بچپن میں ہم سب نے ایک سبق اردو کی کتاب میں پڑھا تھا کہ اتفاق میں برکت ہے ۔ بوڑھے کسان نے اپنے بچوں کو ایک ایک لکڑی دی تھی سب نے ایک ایک کرکے توڑ دیے لیکن جب اس کسان نے بہت ساری لکڑیاں ایک ساتھ دیے تو کوئی بھی انہیں توڑ نہیں پایا اس لیے ہم سب کو ایک بن کر آواز اُٹھانا چائیے۔ ایک آواز بن کر۔ اگر ہم الگ الگ آواز اُٹھائیں گے تو ہماری آواز کو دبا دیا جائیگا کسی نہ کسی طریقے سے۔ اگر ہم سب ملکر ایک ساتھ ایک آواز بن جائیں گے تو ہماری چیخیں کرسی والوں کی نیند اُڑا دیں گی۔
میں پورے بلوچستان کے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں خدا کیلے سب ایک آواز بن جائیں ایک ساتھ ملکر بلوچستان میں ہو رہے ہر ایک ظلم کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ ہر ایک مسئلہ کے بارے میں بات کریں۔سب ایک کاروان کا حصہ بنیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں