سیکورٹی چیلنجز؟ ۔ یوسف بلوچ

120

سیکورٹی چیلنجز؟

تحریر:یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دل اگر چہ نہ امید نہیں ہے لیکن نا امید ہونے والا ہے۔ زبان کی چیخیں، دھوپ کی شعائیں عوم کی آہٹ بس چلتے جانے اور نعرے بازی کے لیے ہم کوئٹہ یا تربت کے پریس کلب اور چوراہے و چوک پہ کھڑے نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا میں دو تصویر کے لیے بھی ہم ٹھنڈی راتوں کو سڑک پر بیٹھ کر نہیں گذارتے۔

ہمارا ایک امید ہوتا ہے،ایک جذبہ جسے ہم امید سے منسلک کرتے ہیں۔ہم پاکستانی ہوکے میڈیا کے ذریعے اپنی آواز کو ملک کے شاہراہِ اقتدار تک پہنچانے کی کوشش اور انہیں سننے اور حل کرنے کی امید سینے میں لگاتے ہیں۔

سانحہِ ہوشاپ کے لواحقین اور کثیر العمر سیاسی شخصیات کی آب بیتی ہو یا بلیدہ کے ننھے رامیز۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور ہزاروں لاپتہ افراد کی لواحقین کی چیخیں۔۔۔ان آواز میں مایوسی اور معصومیت،یہ سب کسی نہ کسی دل کی آب بیتی ہیں جنہیں سمجھانے کے لیے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں،کوشش کرتے ہیں اور مزاحمت کرتے ہیں بحیثیت پاکستانی اور ان کی امیدیں پاکستان کے حکمران،عدلیہ اور میڈیا پر ہوتی ہیں۔

اعلی عدلیہ کس حد تک سمجھتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم ہم یہ بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ لاپتہ افراد کمیشن یا تو قد آور لوگوں کے دباؤ کی نظر ہو چکا ہے یا پھر اس میں ملکی مفادات نہیں دیکھ رہے۔

عدلیہ کی بے حسی ایک توہین آمیز لفظ ہے جو ایک با وقار عدلیہ کے لیے نا زیبا ہے لیکن جب عدلیہ دباؤ کے سامنے جھکے گا،ایک بلوچ کے مفاد کو قومی مفاد تصور نہیں کرے گا، ترازو کا لیول اوپر نیچے ہوگا،عدلیہ اپنی وقار پر سمجھوتے کرے گا تو ایسے توہین آمیز جملے دہراتے رہیں گے۔

حکمرانوں کی بے حسی بھی اگر مگر کا شکار ہے۔ جو لوگ پر امن طریقے سے احتجاج کرتے ہیں، پر امن لونگ مارچ کرتے ہیں،پر امن طریقے سے کسی پریس کلب کے سامنے بیٹھتے ہیں اور پر امن طریقے سے ملک کے وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں۔ان کے مطالبات ردی کی ٹوکری میں ڈالے جاتے ہیں مگر جو سرکاری مشینری کو نقصان پہچانتے ہیں،اہلکاروں کو مارتے ہیں،روڈ بلاک کرتے ہیں،کھلم کھلا دھمکیاں دیے پھرتے ہیں،حتی کے کالعدم کر دیے جاتے ہیں پھر بھی ان سے مذاکرات کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

پیمرا کے احکامات کی روشنی میں میڈیا چند دنوں سے کالعدم ٹی ایل پی کے جلسوں کو کوریج نہیں دے رہا۔کچھ دن پہلے اخبارات کی صفِ اوّل اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز ٹی ایل پی، ٹی ایل پی ہی ہوتے تھے۔

میڈیا میں بلوچستان کی حیثیت کسی سوتیلی ماں کی اپنے سوتیلے بیٹے جیسے ہی ہے۔ بلوچستان حقوق، امن،قانون اور شہری حقوق کے لیے اور محرومیوں کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ میڈیا اسے کوریج نہیں دیتا لیکن میڈیا کے نظر میں اگر بلوچستان آتا ہے،حکومتی و سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں تو ان کے پاس صرف ایک تشویش رہتی ہے بحث کرنے کے لیے اور وہ ہے’بلوچستان میں نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد وہاں کی سیکورٹی چیلنجز؟’

پھر کہتے ہیں ہر فرد کی آواز فلاں فلاں فلاں میڈیا۔۔
ہم کہتے ہیں فلاں مفادات کی آواز،فلاں فلاں فلاں میڈیا۔
شکریہ تو بنتا ہے۔۔شکریہ فلاں فلاں فلاں میڈیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں