سنو! آج تمہارا دن ہے – برزکوہی

1245
آرٹ: زانت بلوچ

سنو! آج تمہارا دن ہے

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے لکھتا، توایسا محسوس ہوتا جیسے ذہن کا غبار الفاظ میں باندھ کر پنوں میں قید کررہا ہوں، اب ایسا لگتا ہے کہ اپنے ذہن کے غبار کے تالاب میں بیٹھا غوطے کھارہا ہوں۔ کاش! میں ویسا لکھ سکتا، جیسا میں سوچتا ہوں۔ کاش! میں خیالات کے جنون کو الفاظ میں اتارسکتا۔ کاش! میں اسی بھوک اور پاگل پن کے ساتھ لکھ سکتا، پھر میں اس وقت تک لکھتا جب تک کے الفاظ کی دبوچ سے میرا دم گھٹنا شروع نا کردیتا، پھر میں تب تک لکھتا، جب تک ان الفاظ کی گونج عدم میں نا گونجتی، پھر میں لکھتا رہتا، ہر لفظ تمہارے نام سے وابسطہ کرکے لکھتا، پھر میں تمہاری ہر ایک کہانی لکھتا، تمہاری ہر وہ کہانی جس کے دیباچے کی طلسم میری امید ہے اور ہر ختمِ مقال کے سائے تلے میرے دکھ و مایوسی چھپے رکھے ہیں۔ وہ کہانیاں لکھتا، جن کی وزن اٹھانے کی اوقات اوراق میں نہیں لیکن میں ٹوٹے الفاظ اور غیرمتوازی صلاحیتوں کو لیکر پھر بھی لکھوں گا، تاکہ میں دکھ کو چاہت اور فرقت کو یاد میں بدل سکوں۔

اپنے ذات کے اندر کسی ان کہے کہانی کو دبائے رکھنے سا بڑا عزاب و امتحان شاید ہی درد نے تخلیق کی ہو۔ پیتروکلس ایک دن اکیلیس سے پوچھتا ہے “کیا تمہیں یاد ہے، ایک بار تم نے جوان ہونے کے بارے میں کیا کہا تھا؟” اکیلیس بولا “ہاں! جوانی ایک ایسا احساس ہے، جیسے آپ کسی کے پیچھے بھاگ رہے ہو لیکن کبھی اس تک پہنچ نہیں پاتے، کچھ بھی کرلو لیکن آپ ہمیشہ چار قدم پیچھے ہی رہتے ہو۔” پیتروکلس پھر بولا “میرا تعلق تم سے وہی ہے۔”

کیا تمہیں پتہ ہے؟ میرے ان الفاظ کا تعلق بھی تم سے ویسا ہی بن گیا ہے۔ لیکن میں پھر بھی لکھوں گا تاکہ بتاسکوں یہ ان جلے ہوئے بچوں کا دن ہے، جنہیں آگ سے محبت تھی۔ یہ تمہارا ماہ اور تمہارا دن ہے، یہ نومبر ہے۔

نومبر بھی عجیب سا مہینہ ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ “دیکھو میں تمہارے بچپن سے کچھ دھوپ خرید کرلایا ہوں، یاد ہے تمہیں جب تمہارے بچپن میں دھوپ کی روشنی کی چمک مختلف ہوتی تھی؟ میں اپنی ٹھنڈی ریشم سی ہواوں کے جھونکے سے تمہارے بال بگاڑنے آیا ہوں، میں وہ آخری ہاتھ ہوں، جسے ٹھٹھرتی ٹھنڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے پہلے تم نے تھاما ہوا ہے۔”

مجھے بہت خوشی ہےکہ میں ایک ایسے دنیا میں رہتا ہوں، جس میں نومبر ہے۔ کٹھی میٹھی نومبر، نازک مزاج لیکن الجھا ہوا بے ترتیب نومبر، خشک پتوں کو کبھی اپنے دوش پر بٹھاکر گھمانے اور کبھی انہیں اپنی مدھم ٹھنڈی سانسوں سے سرکانے والا نومبر۔ ہر سال نومبر سورج کی روشنی کی زرد شال لیکر ہمیں ڈھانپنے کیلئے آتا ہے۔ نومبر تو قدرت کے تدفین کا مہینہ ہے اور قدرت، وہ تو زندگی سے زیادہ نمو موت میں پاتی ہے۔ اس ماہ ہر نرم و نازک ہرا پتا، سنہرے رنگت کی چاہت میں، درخت سے ٹوٹ کر موت کو قبول کرتی ہے۔ تمہیں بھی تو سنہرے رنگت کی چاہت تھی، جس کیلئے تم نے شجر کی بانہیں چھوڑ دیں۔ اسی لیئے تو نومبر تمہارا مہینہ اور تیرہ تمہارا دن ہے۔

یہ ماہ اور یہ روچ تمہارا ہے، تم؛ جسکی ہزاروں اموات اور ایک قبر ہے۔ تم؛ جو ہزاروں اموات کی نشے میں جھوم کر اپنی کہانی خود کو بتارہے ہو تاکہ یہ تصدیق کرسکو کہ زمین کے نیچے جو سورہا ہے، وہ تم ہی ہو۔

اے موت! تمہاری سچائی تو میری مادری زبان سے بھی زیادہ اٹل ہے، بتاو ذرا جو گذرگئے وہ کِس کے ہوئے؟ کیسے وہ ہیت بدل کر لوٹیں گے اور چل دیں گے؟ اور میرے محبوب زندگی! ذرا یہ تو بتا کہ موت سے زیادہ تم تکلیف کیوں دیتے ہو؟

کسی ستارے کے پیدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی “نیبولا” گرجائے، اپنے ہی اندر ایسے دھڑام سے گِرے کہ بکھر جائے۔ اے میرے شہیدوں! یہ گِرنا تمہاری موت نہیں بلکہ تمہارے روشنی کی پیدائش ہے۔ کہتے ہیں کہ آسمان پر ایسے بھی تارے ہیں، جو لاکھوں سال قبل ختم ہوچکے ہیں لیکن انکی روشنی وقت میں قید ہوکر، زندہ ہے۔ سنو! تمہارے روشنی کی پیدائش بھی وقت میں ہوچکی ہے۔ اب زمانے گذرجائیں، لیکن تمہاری روشنی بیچ سمندر کھوئے ہوئے ملاحوں کو راستہ دکھاتی رہیگی۔

اے میرے شہیدوں! تمہارے مدفن جسموں سے پھول اگیں گے، جو تم اور جن میں تم ہوگے۔ یہی تو جاودانی اور یہی خلود ہے۔ تم ہی دوام اور تم ہی ابد ہو۔ تم: جو ہمیشگی ہو، سنو! آج تمہارا دن ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں