دھرتی کے عاشقوں کو محبت سے سلام ۔ محمد خان داؤد

199

دھرتی کے عاشقوں کو محبت سے سلام

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ ایسے نہ تھے جن کے لیے فرانسیسی دانشور کاکتو نے کہا تھا کہ
”پیرس! پیرس! یہ شہر ہمہ وقت اپنے ہی مطلق گفتگو کرتا ہے!“
پر وہ ایسے تھے جن کی زباں پر ہر وقت دیس کی باتیں ہوا کرتیں تھیں،دیس میں تو بہت گلیاں ہوا کرتی ہیں محبوبہ کے گالوں کے رخصاروں کی طرح پر وہ نہ تو ان گلیوں میں کھوسے جا تے تھے اور نہ ہی ان گلیوں پر ھمہ وقت گفتگو کرتے تھے و ہ جب بھی بات کرتے تھے تو دیس کی باتیں کرتے تھے
اگر فرانسیسی دانشور کاکتو انہیں دیکھتا تو کاکتو کو ان سے محبت ہو جاتی!
وہ لیڈر نہ تھے۔ وہ گیدڑ نہ تھے
جن کے لیے مارکس کہا کرتا تھا
”میں سب کچھ ہو سکتا ہوں میں لیڈر اور گیدڑنہیں ہو سکتا
یہ چیختے ہیں،چلاتے ہیں اور یہ یہی چاہتے ہیں کہ وہ مشہور ہو جائیں اس لیے چیخنے اور چلانے سے بھی باز نہیں آتے!“
وہ نہ تو گیدڑ تھے اور نہ ہی لیڈر

وہ عاشق تھے دھرتی کے عاشق! ماں بولی کے عاشق!محبوبہ کی ہنسی کے عاشق، محبوبہ کی میٹھی اداؤں کے عاشق!محبوبہ اور ماں کے کچے گھروں کے عاشق!ماں اور محبوبہ کی گلیوں کے عاشق!ماں اور محبوبہ کی بھری بھری مانگ کے عاشق!محبوبہ کے میٹھے میٹھے بولوں کے عاشق
دھرتی پہ موجود ان کی قبروں کی بدولت گیدڑ تو بھاگ گئے ہیں اور لیڈر ان کی قبروں کی جانب منہ کر کے اپنی بات کہتے ہیں اور خود سے اقرار کرتے ہیں کہ
”ہماری قسمت میں یہ نہیں کہ ہم ان جیسے ہو سکیں!“
وہ فرشتے نہ تھے اگر وہ فرشتے ہو تے تو کبھی بھی ندامت محسوس نہ کرتے
پر وہ ندامت محسوس کرتے تھے اور اس بات کا اقرار اک دو بار نہیں کئی بار کر چکے تھے کہ
”نہ تو وہ ماں کے پاؤں چوم سکے اور نہ ہی محبوبہ کے گال!“
وہ اول تھے! وہ اول تھے! وہ اول تھے!
پر اس وقت دھرتی کے دشمنوں نے ان اولوں کو آخر کیا ہوا ہے
ایک وقت آئیگا جب وہ پھر سے اول ہو جائیں گے
آخر اول ہو جائیگا اور اول آخر!
کنواری دوشیزائیں ان کی سوگن کھایا کریں گی
وقت ان کی قبریں تلاش کرتا پھرے گا
کنواری مائیں جب پہلا بچہ جنیں گی
آگے بڑھ کر ان کا منہ چوم لیں گے
پھر ان بچوں پر وہ نام رکھیں گیں
جن ناموں سے دھرتی رقص کرتی ہے
چاند ان پر نور کا ہالہ کیا کریگا!
سورج پہلا سلام انہیں کریگا پر دنیا پر روشنی کریگا
دھرتی ان کے ہی دم سے توازن برقرار کیے ہوئے ہے
وہ اگر دھرتی سے اپنا دامن کھینچ لیں دھرتی اُوندھے منھ گر پڑے
ہاں وہ اول تھے
اس وقت آخر ہیں
پر آخر کو اول ہونا ہے
رات کے تارے بھی جب دھرتی پہ جا بجا بکھری ان کی قبریں دیکھتے ہیں تو ایک دسرے کو کہتے ہیں
سنو!
”آخر کو اول ہونا چاہیے!“
اور یہ آخر کون ہے؟اور یہ اول کون ہے؟
وہ جو دھرتی کو اپنے خون سے سیراب کر گئے۔وہ جو دھرتی کو اک نیا جیون دے گئے۔وہ جو دھرتی کو ایک نئی پہچان دے گئے۔وہ جن کے خون کے سرخ حاشوں کو دیکھ کر دانشور افسانے لکھتے ہیں۔جن کے سرخ لہو کو دیکھ کر شاعر تُک بندیاں کرتے ہیں۔وہ جن کے سازوں کو چھیڑ کر مغنی نئے گیت گا تے ہیں اور بلوچستان کی پو ری فضا سروں سے بھر جا تی ہے!
کون آخر؟کون اول؟
وہ جن کے لہو لہو ہونے کے دن کوریاستی سرکا ر منانے نہیں دیتی۔
کیا کبھی ماؤں سے یہ بھولا ہے کہ اس کے بچے نے اس کے دودھ سے بھرے پستانوں میں پہلا منھ ب ڈالا؟
کیا مائیں یہ بھول پا تی ہیں کہ ان کے بچوں نے ان پستانوں سے کب منھ موڑا؟
کیا وہ مائیں یہ بھول پا تیں ہیں کہ ان بچوں نے پہلی بار”اماں“کب پکارا؟
کیا وہ مائیں بھول پاتی ہیں کہ ان کے بچوں نے پہلی بار چلنا کب شروع کیا؟
جب مائیں یہ نہیں بھولتیں تو بلوچستان کی دھرتی تو عظیم ماں ہے یہ کیسے بھول پائیگی کہ ان کے بچوں نے اپنے جسموں پر گولیاں کب کھائیں؟
وہ لہو لہو کب ہوئے؟
وہ کہاں؟کیسے اور کب دھرتی میں دفنائے گئے؟
بھلے ریا ست اس دن پر پابندی عائد کر دے
عظیم ماں بلوچ دھرتی سب یاد رکھے ہوئے ہے!
بلوچستان کی دھرتی کوئی شبنم میں اُگ آنے والا مہ کدہ نہیں
پر یہ ایک لافانی سب سے تخلیق کی ہوئی دھرتی ہے جس دھرتی میں سیکڑوں عاشقوں کا لہو سمایا ہوا ہے
یہ دھرتی فراموش کرنے کے لیے نہیں یہ دھرتی محبت کرنے کے لیے ہے
اس دھرتی سے ان انسانوں نے بھی محبت کی جو اب پہاڑوں کے نیچے بھا ری پتھروں کے سائے میں دفن ہیں
اس دھرتی سے ان انسانوں نے بھی محبت کی جو رات کی تاریکی میں اپنی محبوبہ کی بانہوں سے اُٹھا لیے گئے جن کی غیر موجودگی میں ان کی بچیاں جوان ہوئیں اور اب وہ اپنے گم شدہ باباؤں کی تلاش میں ہیں
اس دھرتی سے وہ انسان بھی محبت کرتے ہیں جو دھرتی کی بقا کے لیے پہاڑوں پہ چڑھ گئے اور وہاں سے دھرتی کو محبت کے پیغام بھیجتے رہتے ہیں!
وہ دھرتی کے عاشق پہاڑوں پر کیوں چڑھتے ہیں؟
وہ پہاڑ پر بہت کوشش سے اس لیے چڑھتے ہیں کہ وہ چاند سے قریب ہو جائیں
کیوں کہ انہیں چاند سے محبت ہو تی ہے
انہیں آزادی سے محبت ہو تی ہے
انہیں دریاؤں سے محبت ہو تی ہے
وہ پہاڑوں پر چڑھ کر چاند میں تحلیل ہو جا تے ہیں
وہ دریا میں اتر جا تے ہیں
پھر وہ دریاؤں کا شور ایسے سنتے ہیں جیسے دریاؤں کا شور سدھارتھ سنا کرتا تھا
محبت سے!پیار سے!دھیرے دھیرے!
وہ آزادی کے عاشق ہیں
وہ اول ہیں
ایک دن آئیگا دھرتی آپ ہی اپنے شہدا کی قبرہوں کو تلاش کریگی
ان پر برکھا برسے گی
اور ان پر سرخُ گلاب کھل آئیں گے
پھر تم کیا کرو گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں