دلجان لڑتا رہیگا . ائشمان بلوچ

261

دلجان لڑتا رہیگا

تحریر:ائشمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“یہ محض اتفاق نہیں نا کے کوئی مقابلہ بازی ہے کسی بھی عمل کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے اسکے ماضی میں جاکر اسکے تمام پہلوؤں پر سوچ بچار کے بعد اسے کس طرح بہتر بنایا اور انجام دیا جا سکتا ہے اس پر کام کیا جاتا ہے۔” یہ الفاظ دلجان کے تھے جب ایک دوست نے کئی سالوں بعد جھالاوان میں خاموش تحریک کو پھر سے ابھرتے دیکھ کر سوال پوچھا کہ کیا اب تںطیم کے دوسرے دھڑے سے مقابلہ بازی کے لئے خاموش علاقوں میں مسلح کاروائیاں کی جارہی ہیں؟

یقیناً ایک کامیاب جہد کار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں کو اپنے مقصد سے جوڑ دیتا ہے اور بلوچ تحریک میں مسلح جدو جہد کرنے والے تنظیموں کے پاس لوگوں کو دینے کے لئے کوئی لالچ نہیں بلکہ فکر اور سوچ ہے-

ضیاء پارود شور سے نکل کر جب جھالاوان کا کمان سنبھالنے آیا تھا تو اسے یہاں اپنے ارد گرد محض تھکے ہوئے اور خوف کے سائے میں خاموش اور زندہ مردے کھومتے ملے لیکن جب وہ شور پارود سے جھالاوان کے لئے نکلا تھا تو اسکے بدن پر ایک ہلکا سا سفید خاکی کپڑے اور پھٹے پرانے جوتے سر پر ایک عدد کیپ اور اپنا بندوق تھا-

لیکن دلجان نے جھالاوان کو پھر سے نوروز کی تاریخ مزاحمت پڑھانا شروع کردیا یوں مانو ضیاء ملغوے سے نکل کر اس جھیل کی طرح ہر سمت زہری میں پھیل گیا جو سفر کرتے کرتے پورے جھالاوان کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یوں اسنے اپنے کارواں میں ایسے روشن ستارے شامل کرلئے جو آفتاب سارنگ و سیف اللہ کی شکل میں جھالاوان کے محاذ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور یہی ضیاء کا مقصد تھا کے وہ ہر دؤر میں ہر شکل میں تم سے لڑتا رہیگا-

وہ جانتا تھا کے اب وہ جس سفر پر نکلا ہے وہ اس بار کافی گھٹن زدہ ہے، مردہ ضمیروں کے بیچ آکر بامرد اور غیرت مندوں کی تلاش میں جان کا خطرہ زیادہ ہے اسلئے وہ آخری بار مجھ سے ملنے آیا تھا اور جاتے اسکے چہرے پر یہ نقوش تھے کے دوست ہم دوبارہ شاید نہیں مل پائیں، وہ زہری میں پلتے ابھرتے قوم دشمن قاتلوں سے واقف ضرور تھا لیکن بہترین جہد کار وہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں ہی فیصلے لیکر عظیم کارنامے سرانجام دے-

دلجان کے آخری آرام گاہ کو مسمار کرنا یہ بتاتا ہے کے دلجان تو زہری میں اب ہر اس باشعور نوجوان کے زہن او دماغ میں نقش ہے جس سے تم قوم دشمنوں کو خوف ہے، تم آج جھالاوان سے دور بھاگ رہے ہو گھروں میں محصور ہو تم یہ جانتے ہو دلجان نے جو شعور زہری کے نوجوانوں کو دیا وہی شعور اب پلتے بڑھتے تمھارے لئے بارود کا ایک پہاڑ بن گیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر تمھاری غرور کو مسمار کردیگا-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں