دس روز میں 38 افراد بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے – ایچ آر سی بی

166

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان نے اپنے رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مہینے دس روز میں بلوچستان سے 38 افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں جن میں ایک واضح تعداد بلوچ طلباء کی ہے –

ایچ آر سی بی کے رپورٹ کے مطابق رواں مہینے جبری گمشدگی کے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہ ایک بہت بڑی تعداد ہے –

تنظیم کے مطابق رواں مہینے پانچ نومبر کو تنظیم کو خبر موصول ہوئی کہ بلوچستان یونیورسٹی سے دو طلباء کو سیکورٹی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے جن کی شناخت سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کے ناموں سے ہوئی ہے –

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں سے طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کے بعد دیگر طلباء احتجاجاً اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کرکے احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں –

رپورٹ کے مطابق اس کے اگلے ہی روز پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے علاقے ڈاکخانہ روڈ سے کوئٹہ پولیٹیکنک کالج کے دو طالب علموں زبیر زہری ولد سراج احمد اور عدنان مینگل ولد خدابخش کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے –

رپورٹ کے مطابق اسی روز فورسز نے بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے سابق سیاسی رہنماء سرور بلوچ کے دو بیٹوں بہروز اور نوبہار کو اغواء کرکے اپنے ہمراہ لے گئے ہیں –

بلوچ طلباء کے خلاف حالیہ ریاستی کریک ڈاؤن میں فورسز نے دو اور طالب علم جن کی شناخت عبدالرحمان اور جمیل احمد کے ناموں سے ہوئی ہے کو لاپتہ کردیا ہے –

ایچ آر سی بی کے رپورٹ کے مطابق فورسز نے ایک اور طالب علم اسلم کو بھی حب کے علاقے الہ آباد ٹاؤن سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے –

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 نومبر کو بلوچستان کے علاقے کولواہ میں فورسز نے بیک روزی نامی شہری کو فوجی کیمپ طلب کرکے لاپتہ کردیا ہے اس سے قبل اسکے بیٹے کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کراچی کے بلوچ آبادی والے علاقوں سے فورسز نے پندرہ نوجوانوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے جن میں سے تین کی شناخت نوال، عدنان اور صادق کے ناموں سے ہوئی ہے –