جرائم پر پردہ
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گورنر بلوچستان نے بلوچستان میں اظہار رائے اور اپنے حق کے لئے احتجاج کو روکنے کے لئے نیا آرڈیننس جاری کردیا ہے. اس آرڈیننس کو کرمنل لاء بلوچستان ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا ہے. جس کا نمبر 20121.1 ہے. اس آرڈیننس کے مطابق سڑک، ہائی وے، گلی میں ریلی اور جلسے جلوس کو ممنوع قرار دیا گیا ہے. خلاف ورزی کرنے والوں کو تین تا چھ ماہ سزا اور دس ہزار روپے جرمانہ کی سزا دی جائے گی اور بغیر وارنٹ کے گرفتاری بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے.
یہ نیا آرڈیننس دراصل اس ریاست کے آئین کی شق 19 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کو حاصل ہے. یہ آرڈینسس اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاست کے ادارے بلوچستان کے عوام کو اپنا شہری نہیں سمجھتے کیونکہ وہ اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ بلوچستان ایک نو آبادیاتی ملک ہے جس پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا ہے اور یہ آرڈینسس اس بات کا اعتراف ہے. کیونکہ بلوچستان کے علاوہ کسی اور جگہ اس لاء کو نافذ نہیں کیا گیا ہے.
نیا قانون آمریت کے دور کا قانون ہے جس میں شہری کے آزادی اظہار رائے کو مسدود کیا جاتا ہے.
بلوچستان میں جنگل کا قانون ہے. اس جنگل کے بادشاہ کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے جبکہ عوام جبری گمشدگی سمیت تمام گہناونے جرائم کا سامنا کررہی ہے. اور اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی جرم قرار دیا گیا ہے. دراصل یہ قانون اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے.
بلوچستان میں گمشدہ طالب علموں کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری ہے جبکہ جبری گمشدگی کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، گوادر میں حق دو تحریک تیرہ روز سے جاری ہے، جبکہ اتوار کو پشتون تحفط موؤمنٹ کوئٹہ میں جلسے کا انعقاد کررہی ہے.
ایک ایسے وقت میں کالے قانون کو آرڈینسس کی شکل میں نافذ کرنا مظلوموں کی آواز کو دبانے کی سازش ہے. بلوچستان میں بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر اقوام آباد ہے. یہ تمام قومیں زندگی کی سہولتوں سے محروم کردیئے گئے ہیں ان کے لئے صرف احتجاج کا راستہ ہی بچا ہے. ریاست اور اسکے ادارے ان اقوام سے اظہار رائے کی آزادی بھی چھیننا چاہتے ہیں تاکہ یہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجائیں.
بلوچستان سمیت پاکستان کے مظالم سے متاثرہ عوام ان مظالم کے خلاف یکجاہ ہو کر آواز بلند کریں کیونکہ یہ ریاست اور اسکے ماتحت ادارے آپکی بقاء کے دشمن ہیں اور دشمن ہمیشہ مختلف چالوں سے آپکو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر، قبائلیت کے نام پر تقسیم کرکے آپکی تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے. جس طرح ظالم مظلوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر تشدد کے ذریعے آپ کے تمام حقوق چھین لیتا ہے. اسی طرح مظلوم عوام کی یکجہتی ظالم کے ظلم کو ختم کردیتا ہے.
اس ریاست کے قبضے سے متاثرہ تمام اقوام مختلف طریقوں سے اس کے ظلم و جبر کا شکار ہیں. بلوچستان جبری گمشدگی،فوجی آپریشنز، سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے اور دیگر طریقوں سے ظلم و جبر کا سامنا کررہے ہیں، سندھی، پنجابی، پشتون بھی اسی ظلم کا شکار ہیں. گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کا ڈھنڈورا پیٹ کر غریب عوام کی زمین پر قبضہ کیا جارہا ہے. جب ریاست کا ایک محکمہ اپنے مفادات کے لئے تمام اقوام کو قربانی کا بکرا بنا کر نوچ رہا ہے تو یہ تمام اقوام اپنے حق کے لئے کوئی ایک ساتھ کھڑے نہیں ہوتے. ظلم کے خلاف جنگ کرنا اللہ کی راہ میں جنگ کرنا ہے پھر کیوں خاموشی سے ظلم و جبر کو سہہ رہے ہیں، خاموش رہے بھی موت، احتجاج کرے بھی تو موت بہتر ہے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوکر مقابلہ کریں اور اپنا نام زندہ اقوام کی فہرست میں ڈال دیں اور ان ظالموں کے جرائم کو دنیا کے سامنے آشکار کریں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں