تیرہ نومبر یوم شہداء بلوچستان اور بلوچ قومی بیداری
تحریر:نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
۱۳ نومبر کو بلوچ قوم، بلوچستان اور ساری دنیا میں بلوچ یوم شہداء کے طور مناتے ہیں اور ان شہیدوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنے مادر وطن بلوچستان کی آزادی اور غلامی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
۱۳نومبر ۱۸۳۹ کو میر محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ برطانوی سامراج کی قبضہ گیریت کے خلاف اپنی جانوں کو قربان کر دیا اور بلوچ قوم کو ایک راستہ دے دیا کہ بلوچ قوم اپنے قوم کی عزت وناموس اور اپنے مادر وطن بلوچستان کیلئے سامراجی قبضہ کے خلاف جان دے سکتا ہے لیکن غلامی کو کبھی قبول نہیں کر سکتا ہے۔
اگر ہم بلوچستان کی تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں شہیدوں کی ایک لمبی قطار نظر آتا ہے۔ بلوچ قوم کی تاریخ دلیری اور بہادری کی تاریخ ہے۔ بلوچ قوم نے ہر وقت طاقتوروں اور ظالموں کے خلاف اپنا سر نہیں جھکایا اور موت کو ترجیح دی۔ برطانوی طاقتور فوج ہو یا کہ موجودہ قبضہ گیر پاکستان کی طاقتور فوج ہو لیکن بلوچ قوم نے بغیر خوف و ڈر سے ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کی ۔
جب سے پاکستان نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو بلوچستان پر جبری قبضہ کیا تو اسی وقت بلوچ قوم نے دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی جبری قبضے کے خلاف اعلان جنک کیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ شہید آغا عبدالکریم سے لیکر شہید نواب نوروز خان تک ، شہید نواب اکبر خان بکٹی سے لے کر شہید غلام بلوچ اور ہزاروں نوجوانوں نے اس غلامی کے طوق سے آزاد ہونے کیلے اپنے قیمتی جانواں کا نذرانہ پیش کیا۔
اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جنگوں ،قتل و غارت گیری ، بغاوتوں اور انقلابات سے بھری پڑی ہے۔ جو ریاستوں اور ظلالموں نے عوام ، مظلوم قوموں اور طبقوں پر ظلم و جبر کیا تو اس کے رد عمل نے مظلوم قوموں اور طبقوں نے اپنے حقوق کیلے مزاحمت اور انقلاب کا راستہ چن لیا اور ظالموں کو شکست دے دی کیونکہ جب ظالم ریاست دوسرے مظلوم قوموں پر قبضہ کرتا ہے تو وہ اپنے فوجی طاقت اور بندوق کی نوک سے ان مظلوم قوموں پر اپنا قبضہ جماتا ہے ۔ اس لیے مظلوم قومیں اس قبضہ گیریت کے خلاف اپنا قومی فوج بناتے ہیں اور ظالم ریاست کی قبضہ کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
بلوچ قوم کی اس جدو جہد میں ہر وقت حالات کی مطابق اونچ نیچ آیا۔ کیونکہ اپنے آزادی اور حقوق کیلے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ پرامن ، قانونی ، آئینی اور پارلیمنٹ میں جا کر اپنے قوم کی آزادی اور حقوق کیلے جدوجہد کرنا اور دوسرا راستہ بغاوت اور انقلاب کا راستہ ہے ۔ تو بلوچ نے ہر وقت پرامن ، قانونی اور آئینی طور پر اپنے نمائندے پارلیمنٹ میں بھیج کر اپنے بلوچ قوم کی آزادی اور حقوق حاصل کریں لیکن اس پر امن جدوجہد کے تجربے نے یہ سبق دے دیا کہ پاکستان میں کوئی حقیقی جمہوریت نہیں ہے کہ مظلوم قومیں اپنے حقوق پرامن طریقے سے حاصل کریں۔ کیونکہ پاکستان کے حکمران طبقات ہر وقت مظلوم قوموں کو بےوقوف بناتے ہیں کہ آؤ پارلیمنٹ میں حصہ لے لو تاکہ مظلوم قوموں کا وقت ضائع ہو جائے اور ہزاروں سالوں تک ان کو غلام بنایا جائے اور ان کا مال و دولت کا لوٹ کھسوٹ کیا جائے ۔
جب مشرف کی فوجی آمریت نے نواب اکبر خان بکٹی کو شہید کیا تو اس تجربے نے بلوچ قوم کو بیداری اور شعور دےدیا کہ پاکستان میں پرامن جدوجد عوام کے لیے ایک دھوکہ ہے تو بلوچ اور زیادہ بیدار ہو گئے اور ہزاروں لوگوں نے بغاوت اورمسلح جہدوجد کا راستہ چن لیا۔
ان بیس سالہ قومی جنگ نے بلوچ قوم کو اور زیادہ بیداری دے دی کہ پاکستان اور بلوچستان کا رشتہ قابض اور مقبوضہ کا رشتہ ہے۔ پاکستان نے اپنے سارے فوجی طاقت کو استعمال کرتے ہوے ہزاروں بلوچوں کو شہید کردیا اور ہزاروں کو اغوا کر کے ان کی لاشوں کو ویرانوں اور جنگلوں میں پھینک دیا۔ بہت سے نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کردیا تا حال ان کا کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں مردہ۔ اور بہت سے پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیت کاٹ رہے ہیں ۔
اس ظالم ریاست کے ساتھ کون رہ سکتا ہے جو اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ رکھے ؟ جو مظلوم قومیں اور مظلوم طبقات اپنے حقوق کیلے آواز اٹھائیں اور ان کے بدلے عوام کو ٹارچر سیلوں میں بند کر کے ان کو غیر انسانی اذیت دے دیں۔ تو اس کیلے مظلوم قومیں ان ریاستی ظالمانہ ریووں کو دیکھ کر بغاوت کا راستہ چن لیتے ہیں۔
بلوچ قوم نے اب فیصلہ کر دیا ہے وہ یہ ظالم ریاست کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے ہیں اور اپنے آزاد ریاست کے لیے آخر دم تک جنگ جاری رکھے گی۔ یقنا راستہ پر پیچ و خم ہے لیکن مستقبل روشن ہے۔ اب بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیوں پر فرض ہے وہ اپنے اندر اتحاد اور اتفاق پیدا کریں اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں اور اپنے اختلافات کو دور رکھ کر آزادی کے منزل پر ایک ہو جائیں۔ کیونکہ اختلافات اور تضادات سے ہم نہیں بچ سکتے اور یہ سب اس جہدوجد کا حصہ ہیں۔
یقناً آزادی حاصل کرنے کی لیے قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں طویل المیعاد عوامی جنگ کو آگے کی طرف پیشقدمی کر کے اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرنا ہے۔ کیونکہ جب دشمن طاقتور ہوتا ہے تو طاقتور دشمن سے لڑنے کیلے کمزور قوم کو تدبیر اور حکمت عملی سے دشمن سے لڑنا پڑتا ہے۔
ایک عظیم انقلابی رہبر ماوزےتنگ نے کمزور قوموں اور مظلوم طبقات کیلے ایک فارمولا دیا ہے کہ خاص کر تیسری دنیا میں جہاں پسماندہ سماج میں نیم جاگیردانہ او نیم سرمایہ دارانہ نظام ہو اور وہاں حقیقی جمہوریت نہ ہو تو مظلوم قوموں اور طبقوں کو اپنا عوامی فوج بنا کر اپنے انقلابی پارٹی کی رہبری میں ریاست کے خلاف طویل المیعاد عوامی جنگ برپا کر کے پہلے دیہاتوں میں جنگ شروع کر کے دشمن کے کمزور ٹھکانوں پر پہلے حملہ کر کے دیہی علاقوں کو آزاد کر کے اپنا اڈہ بنانا اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے شہروں کو اپنے قبضے میں لینا اور آخر میں سارے ریاستی طاقت کو اپنے قبضے میں لے لینا ہے اور یہ ضروری ہے کہ جنگ کے ذریعے علاقوں کو اپنے قبضے میں لینا ہے کیونکہ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب آپ اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد نہیں کریں گے۔
یہ ضروری ہے کہ جنگ کی پارٹی رہبری کرے اور قومی فوج کو عوام سے مربوط ہو کر جنگ کو آکے بڑھایا جائے اور اسی طریقے سے فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ عوامی حمایت کے بغیر اگر آپ کے پاس چاہے کتنے حساب میں بندوق اور فوج ہو تو دشمن کو شکست دینا بہت مشکل ہو گا۔ تو اس لیے قومی فوج کو عوام میں جا کر اتنا شیر و شکر ہونا چاہیے کہ عوام کے جان و مال اور ان کے ننگ و ناموس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینا ہے تاکہ عوام عملی طور پر سمجھے اور دیکھے کہ یہ قومی فوج ہماری اپنی فوج ہے اور ہمارے لیے جنگ کررہا ہے۔ تو یقناً عوام اس جنگ کی حمایت کرے گا اور فتحیاب ہوں گے۔
اس لیے سیاسی پارٹی کا فرض ہے کہ وہ عوام کو متحرک کر کے اور عوام میں جوش و جذبہ پیدا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام اس قومی جنگ کی حمایت او مدد کریں با یک وقت جہاں سرمچار دشمن کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہیں تو سیاسی پارٹی کا فرض ہے وہ دشمن پر سیاسی حملہ کرے اور اور عوام کو متحرک کریں اور دشمن کے ظلم و جبر کو آشکار کریں۔
یقناً بلوچ قوم اپنے خاص سیاسی ،معاشی اور جغرافیہ کے حدود میں رہ کر اور اپنے بلوچ قوم کی نفسیات کو سمجھ کر اپنا جنگ آگے کی طرف پیش قدمی کررہا ہے اور دشمن کو نفسیاتی طور پر شکست دی ہے۔
ان سرمچاروں کی جنگ کے بدولت آج عالمی طاقتیں اس جنگ کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا ہے اور بلوچ قوم کی نسل کشی کررہاہے۔ یقیناً عالمی عاقتیں بلوچ قوم کو کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کے اپنے سامراجی اور سرمائے کے اپنے مفادات ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں