تاریخ خود کو کیوں دُہراتی ہے؟ ۔ معشوق قمبرانی

613

تاریخ خود کو کیوں دُہراتی ہے؟

تحریر: معشوق قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

ہم نے اکثر یہ پڑھتے یا کہتے سُنا ہے کہ ’تاریخ خود کو دُہراتی ہے‘ لیکن یہ نہیں پڑھا اور سمجھا کہ’تاریخ خود کو کیوں دُہراتی ہے؟‘۔

تبدیلی کا جدلیاتی قائدہ؛

تبدیلی کبھی جامد نہیں ہوتی۔ تبدیلی مسلسل تحرک کا نام ہے۔ دنیا میں آج تک ساری تبدیلیاں ’اِی آر اسکوائر (ER2)‘کے فارمولے سے آئی ہیں۔
۱۔ اوولیوشنری چینج، ۲۔ ریمارمیشنری چینج، ۳۔ روولیوشنری چینج

تاریخی مادیت؛ تاریخی مادیت پر ہیگل کی رائے یہ تھی کہ آپ کتنے اعلیٰ خیال رکھتے ہیں؟ تاریخ ان خیالات کے ارتقائی سفر سے بنتی ہے۔ لیکن مارکس نے کہا کہ ہیگل کا خیال پرستی کا نظریہ سٙر کے بّل اُلٹا کھڑا ہے کیونکہ تاریخ اس چیزسے کبھی نہیں بنتی کے کس کا خیال (شعور) کسی بھی دور میں کتنا اونچا رہا ہے؟ بلکہ تاریخی مادیت کی ارتقا میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ آپ کا سماجی وجود کیا ہے؟ اور اس کا سماجی تبدیلی میں کیا کردار ہے؟ اس طرح مارکس نے تاریخ کو محض خیالی قصے کہانیوں سے نکال کر اس میں سماجی تبدیلی کی جدوجہد اور محنت کے عنصر کو شامل کردیا اور تاریخی ارتقا کو سماجی تبدیلی کے محرکات کے حوالے کردیا۔

مارکس کے تاریخی مادیت پررائے کے مطابق ارتقائی تبدیلیاں ہمیشہ اپنا سفر جاری رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ پھر ان کا کوئی پہلو مثبت ہو یا منفی لیکر ارتقائی تبدیلیاں رُکتی نہیں۔

جدلیاتی مادیت ؛ جدلیات کسی بھی چیز کے تبدیلی کے فطری قانون ، ترتیب یا اس کے بناوٹی قانون کو سمجھنے اور پرکھنے کے ایک “سائنسی ادراک” کے طریقہء کار کو کہتے ہیں۔

جدلیاتی مادیت “مسلسل متعلقہ تبدیلی” Continious Ralative Change” کا نام ہے۔ یعنی ہم اپنی تاریخی مادیت کے اعتبار سے اپنی سماجی ارتقا میں ایسی کون سی متعلقہ تبدیلی کا عمل دیکھ رہے ہیں یا لا رہے ہیں؟ جو ہمارے وجود کو کسی نئی انقلابی شکل میں تبدیل کر رہی ہے؟ کوئی بھی انقلابی تبدیلی خودرو بنیادوں پر رونما نہیں ہوتی، بلکہ جدلیاتی مادیت کے قانوں تحت اس کے لیئے ایک انقلابی طریقہء کار درکار ہوتا ہے۔

ہماری انقلابی تحریکیں اور جدوجہدیں ہی ہمارے سماجوں اور تاریخ کو متعلقہ جدلیاتی تبدیلی (جدلیاتی مادیت) میں سموتی ہیں، اگر ہم انقلابی تحریکوں کے بنیادوں میں کوئی ایسی کمی نہیں چھوڑتے جو انقلاب کے جدلیاتی قانون کے خلاف کوئی رد انقلابی صورتحال پیدا کرے یا جس کی وجہ سے کسی بھی سماج میں اس انقلاب کو خود کو دوبارہ دُہرانہ پڑے۔ جس طرح انقلابِ فرانس کے بعد بھی خود فرانس کے اندر اور یورپ کے کئی سماجوں میں بار بار انقلاب آتا رہا اور تب تک آتا رہا جب تک اس کے ان سماجی تبدیلی کے جدلیاتی قوانین کو اس طرحہ پورا نہیں کیا گیا ، جس طرح ان کے تقاضات تھے۔ نجیب کے دور میں افغانستان جیسے سماج میں بھی سوشلسٹ انقلاب کا حشر اور منتقی نتیجہ بھی ایسا ہی نکلا۔

روس پر حملہ نیپولین بونا پارٹ سے ہٹلر تک، افغانستان پر حملہ برطانیہ سے امریکہ تک؛

بین الاقوامی تعلقات و عالمی سیاسی تاریخ کے علم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جنگوں کی عالمی تاریخ میں وہ کون سی جنگی غلطیاں یا ایسے تاریخی واقعات تھے؟ جن پر جنگی تاریخدانوں کو لکھنا پڑا کہ ’تاریخ خود کو دُہراتی ہے‘۔

تاریخ خود کو دو مختلف رُخوں میں دہراتی ہے، ایک کامیاب یا مثبت تبدیلی کا رُخ، دوسرا وہ ماضی کی غلطی یا منفی تبدیلی کا رُخ۔
اٹھارویں صدی میں جب پورا یورپ انقلابِ فرانس بعد کے اثرات سے خوفزدہ تھا اور نیپولین بوناپارٹ نے یورپ کی تمام قوموں پر نفسیاتی برتری اور خوف طاری کیا ہوا تھا تب نیپولین بوناپارٹ نے ایک ایسی غلطی کی، جس نے بوناپارٹ کی بڑھتی ہوئی سلطنت کو ڈبودیا اور وہ غلطی تھی روس پر حملہ کرنا۔ نیپولین بوناپارٹ کی آدھی فوج روس کی برفانی جاگرافی میں پھنس کر تباہ ہوگئی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نیپولین بوناپارٹ کی روس میں اس تاریخی شکست کے ٹھیک ڈیڈھ سؤ سال بعد وہ ہی غلطی جنگِ عظیم دوئم میں ہٹلر نے عین اس وقت دہرائی جب ایکسز پاور کی بڑھتی ہوئی جنگی پیش قدمی سے خوف سے اتحادی قوتیں کپکپا رہی تھیں۔ تب جرمنی نے روس پر حملہ کردیا۔

اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی کبھی چلتی ہوئی جنگوں میں ہم جب ماضی کے تجربات اور واقعات سے نہیں سیکھتے تو لازماََ تاریخ خود کو اسی ہی رخ میں دوبارہ دہرائے گی۔ جس رخ میں پہلے گذر چکی ہے۔کیونکہ جب مختلف ادوار میں دو مختلف تجربات ایک ہی طریقے سے کیئے جائیں تو ان کا نتیجہ بھی کم و پیش ایک ہی نکلنا ہے۔ باقی ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گذرے ہوئے تجربات کو دوبارہ دہرائیں اور نتیجہ مختلف آنے کی توقع رکھیں؟

اسٹریٹجسٹ اینالائسٹ جنگوں کی عالمی تاریخ میں افغانستان پر برطانیہ سے لیکر سوویت روس اور اب امریکہ تک کی تھوپیں گئیں جنگوں پر یہ ہی مثال دیتے ہیں کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اورسقوطِ بنگال کی طرح مسقبل میں اب یہ ہی حشر پاکستان کا ہونے والا ہے۔کیونکہ ایک تو پاکستان کا بنیاد ہی غلط ہے اور دوسرا اس کے چلانے والوں کا مائینڈ سیٹ وہ ہی رہنا ہے۔

سندھی قوم کی صدیوں سے ایسی حالت کیوں ہے؟

بطور سندھی قوم ہم تاریخ کے بہت سے واقعات کے گیت گُنگناتے نظر آتے ہیں کہ تاریخ میں ہم فلاں فلاں رہے ہیں۔ ہماری تاریخ ، تہذیب ،کلچر فلاں فلاں رہا ہے وغیرہ۔ لیکن کیا ہم نے اس تاریخی ادراک کا تحقیقانہ جائزہ لیا ہے کہ ہم تاریخ میں کچھ بھی تھے لیکن اب کیا ہیں؟ اور وہ کون سے محرکات و واقعات ہیں جو تاریخ میں باربار گھما پھرا کر ہمیں وہیں ہی لاکر پھینکتے ہیں جہاں سے ہم نے صدیوں پہلے کی تہذیب سے سفر کیا تھا؟

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے سب سے پہلے صنعت اور معیشت، کاروبار اور ایجادات کا مرکز موہن جو داڑو کی سندھو تہذیب کے لوگ آج کی سائنس اور ٹیکنالاجی کی کہکشاؤں کو چھوتی ہوئی دنیا سے اتنا پیچھے کیوں ہیں؟ کہ اپنے وجود اور پہچان کو ہی بچانے کی جنگ میں جُٹے ہوئے ہیں۔

ایسا کیا ہے کہ سندھ کی ہزاروں سالوں کی تاریخ میں سندھ اور سندھی قوم پر بیرونی حملوں اور یلغاروں کا کبھی نا رکنے والا سلسلہ چلتا ہی آرہا ہے؟ اور آج پھر ہم غلام ہیں۔ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ایجادات و سیاسیات میں صدیوں سے ایسی کون سی کمی رہتی آ رہی ہے؟ جس نے ہمیں دوءر در دور بیرونی حملے آوروں اور لشکروں کے سامنے کمزور رکھا ہے؟

کیا وہ سندھ کا ’دفاعی محاذ‘ ہے یا کیا وہ سندھی سماج کی رواداری و برداشت کی روایات ہیں؟ یا سندھی سماج میں موجود کوئی دوسرے قوم دشمن اور وطن دشمن عناصر ہیں؟ اگرایسے عناصر و کمزوریوں کا ہمیں ادراک ہو بھی گیا ہے تو تب بھی ہم ان کو جڑ سے اکھاڑ کر نکال کیوں نہیں دیتے؟

اب ہمیں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ وہ کون سی کمی ہے کہاں پر کمی ہے یا کس میں کمی ہے؟

تاریخی و زمینی حقائق کے جائزے کا کوئی پیمانہ مقرر کرکے ہمیں ان چیزوں کا درست دراک حاصل کرنا ہوگا، جن چیزون کی وجہ سے ہم آگے کسی نتیجہ خیز موڑ میں داخل نہین ہو رہے اور باربار تاریخ کے اسی ’چکرویو‘ میں بیل کی طرح گھوم پھر کر وہیں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں!

سماجی جائزہ؛
سندھی سماج کا سماجی جائزہ ہمیں اس رخ سے لینا پڑے گا کہ ہمارے سماج کی ایسی کون سی کمزوریاں ہیں؟ جنہوں نے عرصہءِ دراز سے ہمیں اس حالت میں پھنسا کے رکھا ہے؟

کیا ہر دشمن حملے و قبضے کے بعد بھی سہل پسندی و عدم تشدد ہماری سماجی کمزوری رہی ہے؟

کہیں مذہبی روایات و مدہ خارج رسومات نے ہمیں مختلف جاہلانہ توہمات میں پھنسا کر تو نہیں رکھا ہے؟

کیا قبیلہ پرستی، ذات پرستی ، نسل پرستی ،شخصیت پرستی یا علائقہ پرستی جیسی جاہلانہ باتیں ہمارے سماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح کھاتی آتی ہیں۔ جنہوں نے ہمیں ابھی تک ایک “قوم اور قومی تحریک” بننے میں رکاوٹیں پیدا کی ہوئی ہیں؟

کیا تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمارے سماجی ، معاشی اور پیداواری تعلقات و زرایع ایک قومی معاشی تشکیل لینے میں باہمی کمزوریوں اور توڑ پھوڑ کا شکار رہے ہیں؟ جو معاشی پیداورای وسائل و زرایع ایک منظم قومی ڈھانچہ بنانے میں ناکام رہے ہیں؟

سیاسی جائزہ؛
کیا تاریخ کے مختلف ادوار میں ہماری سیاسی تحریکیں سماج کے ان تقاضات و لوازمات کو پورا کرنے سے قاصر اور فراریت کا رویہ اپناتی رہی ہیں، جن کو پورا کرنے سے سماج کے تمام طبقات کے لوگ ان تحریکوں سے جڑ جاتے اور کسی اجتماعی تحرک و تبدیلی کا محرک بنتے؟

تنظیمی جائزہ؛
تاریخ کے مختلف ادوار میں جن سیاسی جماعتوں کو ہم قومی جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتیں کہتے اور سمجھتے ہیں ، خود ان جماعتوں کی سیاسی صحت کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ سیاسی سماجی تقاضات کے مطابق اپنا وہ انقلابی تبدیلی کا کردار ادا کرنے لوازمات کو پوری کر رہی ہیں یا نہِیں؟

یا وہ اپنی بناوٹ اور ہِیئت Nature and Structure میں واقعی انقلابی تنظیموں کے معیار اور کردار پر پورا اترتی ہیں یا صرف خانا پوری ، نعریبازی اور اشتہابازی تک ہی محدود ہیں؟

کیا مذکورہ تنظیمیں آج کے جدید دور کے تقاضائوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی کے مُردہ و مدہ خارج خیالات، پالیسیوں اور طریقیکاروں کو ایسے ہی لپٹی ہوئی ہیں؟ جیسے ماضی کے تمام ناکام سیاسی تجربات اور مشاہدات کی مثالیں تاریخ کے مردہ خانہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

تاریخ بہت بے رحم چیز ہے۔ ہم خود کو بدلیں نا بدلیں ، ہم خود کو جدید انقلابی حکمت عملیوں کےتقاضات پر پورا کریں نا کریں ۔ لیکن تاریخ اپنا وہ خال کسی دوسرے طریقے سے بھی بھر دیتی ہے۔ فرق صرف اتنا رہ جاتا ہےکہ تاریخ کے اس تبدیلی کے مراحل میں ہمارا قومی وجود کس شکل و صورت میں باقی بچ جاتا ہے ۔ یہ سوال اس “خال کی پورائی” پر منحصر کرتا ہے۔

تاریخ خود کو کیوں دُہراتی ہے؟

تاریخ خود کو اس لیئے دُہراتی ہے کہ تاریخ کے گذرے ہوئے واقعات اور اسباق سے ہم کچھ نہیں سیکھتے اور اگر کچھ سیکھتے یا سمجھتے بھی ہیں تو بھی ان تجربات میں کہیں پر کوئی ایسی کمی ضرور رہ گئی ہوتی ہے، جسے شاید ہم نے گذشتہ وقت کے تجربات اور مشاہدات کے مطابق پورا نہیں کیا ہوتا ہے۔ اس لیئے تاریخ تب تک خود کو اسی طرح باربار دُہراتی رہے گی، جب تک ہم وہ رہی ہوئی ’کمی‘ پوری نہیں کرتے یا وہ خال پُر نہیں کر پاتے ، جن تاریخی لوازمات کی تکمیل کو تاریخ باربار وہ تقاضا کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں