بھاگ ناڑی میں تعلیم کی صورتحال
تحریر:وحید احمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بھاگ ناڑی میں تمام سہولیات سے آراستہ لائبریری کی خواہش جو ابھی تک اپنے پائے تکمیل ہونے کا منتظر ہے۔ بھاگ ناڑی جو کہ بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلع کچھی میں واقع ہے۔ یہاں میونسپل کمیٹی کے دفتر کے قریب ہی پبلک لائبریری کی بلڈنگ دہائیوں سے خستہ حال ہو چکی ہے، مگر ابھی تک محکمہ تعلیم نمائندہ ارکان اسمبلی کے نظروں سے گزر کے اپنے خستہ حالی اور غیر فعالی پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نا ہوسکا ہے۔
بھاگ ناڑی کے تعلیم کے تناسب کو اگر دیکھا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہی ہے،کیونکہ یہاں کے 70 فیصد لوگ مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں روز معمول کے مطابق صبح اٹھ کے گدھے پر پانی بھر کر گھر گھر بھیجتے ہیں ان کے گھر اِن ہی پانی سے چلتا ہے، تو دوسری طرف جو تھوڑا بہت سکت رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کی تعلیم کی بھوک صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھیج کر مٹاتے ہیں۔
یہاں کے عوام کو عرصے سے منظم منصوبے کے ساتھ لاشعور رکھا گیاہے کیونکہ یہاں کے وڈیرے اپنی جاگیر دارا نہ رویہ رکھ کر اپنی بقا کی خاطر اور قوم دشمنی پر غریب بلوچوں کو تعلیم سے دور کرنے پر بضد ہیں، جس سے انکی اجارہ دارانہ اور پدرشاہی نظام محفوظ رہ سکے۔اگر زیادہ ہم کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم اُن غریب بچوں کی خاطرجو مالی حوالے سے غیر مستحکم ہیں جو باہر جا کر پڑھ نہیں سکتے اُن کے لئے انہی کے ہاں انہیں ایسا ماحول مہیا کیا جائے تاکہ وہ کچھ سیکھ سکیں ۔
یہاں کے وڑیرے اور سرمایہ دار طبقہ منشیات کے اڈے بچانے میں مصروف عمل ہے، بجائے اسکے کہ بھاگ ناڑی کے عوام اور اُن کے بچوں کی مستقبل کی خاطر یہاں پر تعلیم کیلئے اپنا کردار ادا کرتے، بھاگ کی گلیوں میں معاشی بحران اور منشیات کی دستیابی کی وجہ سے غریب کے بچے چوری، منشیات کے عادی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی معاشرتی برائیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔جس میں کثیر تعداد 15سال سے لیکر 18کے نوجوانوں کی ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس طرح دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
منشیات کا ذکر کرنا میرا محض ایک اشارہ ہے،جو معاشرے کی اور بلوچ قوم کے بگاڑ میں ملوث ہیں وہ اپنے کردار بخوبی ادا کر رہے،یہاں پر سوال اُن کا ہو رہا ہے جو بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں تواپنی نسلوں کو تباہ ہوتے کیوں اس طرح دیکھ رہے ہیں۔
اب آتے ہیں اس مذکورہ موضوع کے دوسرے پہلو پر کہ جہاں مورخہ 28 فروری 2021 میں ہم ساتھیوں نے ملکر مشاورت کے بعد متفقہ فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہم سے ممکن ہوا ہم بھاگ ناڑی کے تعلیم کیلئے کرینگے۔
جہاں سب سے پہلے ایک کمرے کو لائیبریری کے نام سے پکارا جو کہ بھاگ ناڑی میں موجود چھلگری قبیلے سے تعلق رکھنے والے شخص نے ہمیں مہیا کیا تھا۔
ہم نے موجودہ ریزیڈینسل کالج خضدار کے پرنسپل پروفیسر محمد نواز سومرو سے رجوع کیا تو انہوں نے ہمیں کچھ پیسے دیے اور کچھ ہم دوستوں نے ملکر چندہ کیا تاکہ ہم لائیبریری کی ضروریات کو پورا کر سکیں مگر علاقائی معتبرین کا حمایت حاصل نہ ہو سکا۔
میری اس تحریر کا مقصد کسی بھی انسان کی دل آزاری کرنا نہیں بس میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمیں لائبریری کو فعال بنانے کے لیے علم دوست ساتھیوں کی ضرورت ہے تاکہ لائبریری میں بنیادی سہولیات میسر کی جا سکیں۔
لہذا میرا تمام علم دوست ساتھیوں سے درخواست ہے ہماری امداد کریں تاکہ وہ بولان جس کے ہر پہاڑ و چٹان سے بلوچ قوم دوستی کی انتہا دیکھی جا سکتی ہے اُس کے بچے منشیات سےمفلوج نا کئے جاسکیں اور بلوچ قوم کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کر سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں