بلوچ طلباء کی یونیورسٹی سے اغواء ہونے کا معمہ ۔ ڈاکٹر عزیز بلوچ

427

بلوچ طلباء کی یونیورسٹی سے اغواء ہونے کا معمہ


تحریر: ڈاکٹر عزیز بلوچ (سابقہ وائس چئیرمین بی ایس او)

دی بلوچستان پوسٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل کے تمام جانوروں نے شیر کو لعن طعن کیا کہ تم بناء قصور کے جنگل کے معصوم جانوروں کا شکار کرتے ہو، جس پر شیر نے معافی مانگ لی اور کہا آئندہ کسی قصور اور غلطی کے بغیر کسی معصوم جانور پر حملہ آور نہیں ہونگا۔

ایک دن شیر کو پیاس اور بھوک لگی تو اس نے چشمے سے پانی پی لیا اور دیکھا ایک تازہ ہرن دور پانی پی رہا ہے تو اس نے ہرن سے کہا کہ تم نے پانی کو گندہ کرلیا ہے لہذا میں اس سزا کے طور پر تمہیں کھانا چاہتا ہوں، ہرن نے کہا کہ چشمہ جہاں سے بہہ رہا ہے وہاں بادشاہ سلامت تم کھڑے ہو اور ایسے کیسے ہوسکتا ہے میں دور کھڑا پانی کو گدلا کردوں؟

شیر نے کہا نہیں تم ہی نے گدلا کیا ہے اور میں تمہیں کھالونگا یہ کہہ کر اس نے ہرن پر حملہ کردیا اور دوسرے جانوروں کو پانی گندہ کرنے کا بہترین بہانہ پیش کیا۔

بالکل ایسے ہی ایک بار بھیڑیئے نے بھیڑ بکریوں کی ریوڑ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی فلاں گم شدہ بھیڑ کا پتہ لگائے گا میں اسے انعام دونگا دور کھڑے ایک بھیڑ نے ہاتھ اوپر کرکے کہا سرکار ہم بھیڑوں میں سے کسی نے اسے کھا لیا ہوگا ورنہ مجال آپ کے ہوتے ہوئے کوئی اور بھیڑ کو کھاتا۔

سوچنے کی بات ہے کس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائیگا اور شاید ہم سٹوڈنٹس نے انہیں چھپایا ہوگا لیکن قلم گاہ میں بندوق لہرانے والوں کے ہوتے ہوئے اور کسے جرات ہوسکتی ہے کہ طلباء کو غائب کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں