بلوچستان مقتل گاہ بن چکا ہے
تحریر: سمیر رئیس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
افسوسناک اور دلسوز خبروں نے میرے اندر کے انسانیت کو جگانے کے ساتھ ساتھ مجھے قومی مسائل پہ بات کرنے کی ہمت و قوت پیدا کرنے کی سکت دی ہے۔ بلوچستان میں پتہ نہیں چلتا کہ کتنے مراد امیر جیسے کمسن لڑکوں کے ساتھ زیادتی اور ہراساں کرنے کی داستانیں زیر بحث نہ آئی۔
آج اس ظلم و بربریت کا سب سے بڑا ذمہ دار ہم بلوچ خود ہیں ، ہم اس بات کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ تربت میں پرائیوٹ ملیشیا چند پیسوں کے خاطر چادرو چاردیواری کی پرواہ کئے بغیر گھر میں گھس کر چوری اور اوپر سے سینہ زوری کرنے لگے تو بعد میں شھید ملک ناز نے بہادری کے ساتھ انہیں سبق سکھایا اور ان چوروں کو بے نقاب کیا تاکہ آئندہ یہ خونخوار لیٹرے کسی اور بلوچ عورت کی گھر میں گھسنے کی ہمت نہ کریں لیکن بد قسمتی سے ملک ناز کو ننھی سی برمش کے سامنے اندھے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح کچھ دن بعد تمپ کے علاقہ دازن میں لوٹ مار کرنے والے خونخوار لٹیروں نے کلثوم نامی خاتون کی کانوں سے سونے کی بالیاں اتارنے اور گھر کے دیگر قیمتی سازوسامان اور زیورات لوٹنے کے بعد خنجر کے وار سے انہیں قتل کردیا۔
ایسے شرمناک واقعات کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا ہمیں چاہیے کہ اس طرح کی جبر کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے ، کچھ گروہ اب جتنے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، ایسی گھناؤنے حرکتوں کی زیر کرنے میں دیر نہیں لگتی عوام کی پرزور آواز سے خوف و دہشت کی دیواریں لرزنے لگیں گے، ان غنڈوں کا سرغنہ کوئی بھی ہے یا ان کی سرپرستی کر رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بلوچ کے وسائل پر قابض ہے، ان کو بلوچ قابض ہونے نہیں دے گا۔
ایسے ہزاروں واقعات سے ہم بے خبر ہیں لیکن اپنے ڈر سے حقائق کو سامنے لانے سےکتراتے ہیں کہ کل یہ واقعہ ہمارے ساتھ پیش نہ آئے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ احتیاط کرنے سے ہم بچ جائیں گے اگر واقعی کوئی یہ سوچ رہا ہے تو اس غلط فہمی سے دور رہے ہیں کیونکہ ہر حال میں آپ کو بلوچ ہونے کی سزا بھگتنا پڑے گا۔
اسی طرح حیات مرزا نامی ایک بلوچ طلب علم کو بے دردی سے اس کے والدین کے آنکھوں کے سامنے ایک بے لگام بہ زور طاقت نافذ کردہ ایف سی اہلکار نے آٹھ گولیوں کا نشانہ بنایا۔ آخر کار حیات مرزا کو بلوچ ہونے کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک قابل ترین اور ہونہار بلوچ طلبہ ہونے کی سزا بھگتنا ہی پڑا۔
تاج بی بی کون ہے شاید ہم اس کے متعلق سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں سے واقف ہیں لیکن میرے سامنے ایک رپورٹ میں تاج بی بی کی بھائی کا ردعمل کچھ اس طرح تھا۔ انھوں نے کہا ہم تربت آسکانی بازار سے صبح آٹھ بجے نکلے۔اس راستے میں تمام ریاستی فورسز کی چوکیاں اور چیک پوسٹس قائم ہیں، پولیس کے قائم کردہ چوکی بھی موجود ہیں، اسی طرح لیویز کے بھاری نفری بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہماری گاڑی کسی ویرانے سے نہیں نکلی تھی کہ جسے مشکوک سمجھ کر ٹارگٹ کیا جاتا۔ زمباد گاڑی تھی کوئی موٹر سائیکل نہیں تھی کہ جسے فرار ہونے کی کوشش میں نشانہ بنایا گیا ہو ، ایک خاتون کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
ان کے مطابق ایک گولی میری بہن کے ماتھے پر ماری گئی جو پیچھے سے نکل گئی اس کے بعد دو اور گولیاں بھی خواتین پر چلائی گئیں جنھوں نے گاڑی کی آڑھ لے کر خود کو بچایا۔ اس ریاستی فورسز کو یہی ذمہ داری دی گئی ہے کہ جنگل اور پہاڑوں میں پکنک کرتے ہوئے بلوچوں کو قتل کرنا اور اٹھانا ہی ایف سی اہلکاروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔
محراب پندرانی اور رابعہ بلوچ قتل کے واقعات بلوچستان میں آئے دن رونما ہونے والے ان واقعات میں سے محض دو نمایاں واقعات ہیں جو سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کے ذریعے منظر عام پر آئے تھے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بلوچستان میں صرف یہی دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں جرائم پیشہ اور طاقتور لوگوں کے ہاتھوں جن کو ریاست کا آشیرواد حاصل ہے ، روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کا قتل ہوتا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر ریاست کی سرپرستی میں اسطرح کے واقعات ہورہے ہیں یہی آئینی قانون اور ادارے سیاسی کارکنان کے خلاف ، طلباء کے خلاف تو بہت جلد حرکت میں آتی ہے، لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا جاتا لیکن جرائم پیشہ افراد آزاد ہیں۔ قبائلی رنجشوں میں اگر کوئی کسی خاندان کا صفایا کر دے تب بھی قانون ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
رابعہ بلوچ ، ایک معصوم بچی ہیں ، جو بلوچستان میں ڈیرہ غازی خان کے بواٹہ منرو کے رہنے والے ہیں۔ ان کے گھر پر جرائم پیشہ افراد نے حملہ کیا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے خاندان کے 3 افراد کو بے رحمانہ طور پر قتل جبکہ تین افراد کو شدید زخمی کیا گیا فائرنگ سے ایک چھوٹی معصوم بچی رابعہ بلوچ بھی زخمی ہوگئی تھی۔
ایسی ریاست جہاں کوئی بازار میں بھی محفوظ نہیں کم از کم اسے گھر میں تو چین و سکون نصیب ہو لیکن بلوچستان میں ڈیرہ غازی خان سے لے کر تربت تک لوگ اپنے گھر میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ انھیں بیک وقت کئی خطرات کا سامنا ہے۔ریاستی فورسز بشمول پولیس جو خود کو عوام کے محافظ قرار دیتے ہیں، بلوچستان میں لوگ سب سے زیادہ انہی اداروں سے خوفزدہ ہیں کہ مبادہ ان کو سڑک پر بے عزت نہیں کیا جائے یا کسی معمولی بات پر رات کو گھر میں گھس کر حراست میں لے کر جبری لاپتہ نہ کیا جایا، جب تک یہ سلسلے بند نہیں ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی نہیں ہوگی ، جرائم پیشہ افراد طاقتور ہوں گے اور عام آدمی کی زندگی اسی طرح اجیرن ہوگی۔
دوستوں ، یہ تو شاید مملکت پاکستان میں ہر جگہ سکہ رائج الوقت ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے قانون بھی اس کی جیب میں ہے، شال جسے آپ کوئٹہ کہتے ہیں دولت لہڑی نامی ایک شخص نے جو اپنے نام کی طرح دولت مند بھی ہے اور اپنے دولت کے بل پر وقت کا قارون بن چکا ہے۔ اس نے اپنے گھریلو ملازم محراب پندرانی پر 35 لاکھ روپے کی چوری کا الزام لگایا ، نہ وہ پیسے برآمد کرسکا ، نہ اس کے پاس ثبوت تھے۔ نہ اس کو آئین اور قانون کا خوف تھا کہ وہ پولیس کو اس بارے میں رپورٹ درج کرواتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ قانون تو پیسے والوں کی جیب میں ہوتا ہے ، اس لیے اس نے آپ ہی عدالت اور قانون بن کر نوجوان محراب پندرانی پر وہ انسانیت سوز تشدد کیا کہ جسے سن کر بھی درد محسوس ہوتا ہے، اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا جس سے وہ بیچارہ موت کی منہ میں چلے گئے۔
کراچی یونیورسٹی کا طالب علم یاسر ظفر کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا وہ بھی ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔ یاسر ظفر شعبہ جیوگرافی کراچی یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم تھے وہ عید کی چھٹیاں منانے اپنے آبائی گاؤں بلیدہ میں گئے ہوئے تھے۔
بلوچستان مقتل گاہ بن چکا ہے اسی طرح رامز خلیل کو پولیس نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا اس کا چھوٹا بھائی رایان خلیل کو پولیس نے دوران فائرنگ زخمی کیا یہی تو اس پولیس کا اصل چہرہ اور رویہ ہے۔ کمسن چھوٹے بچے رامز خلیل کے خون ناحق کا جوابدہ کون ہے اور کیوں اس پہ وار کیا گیا، ایسے بہت سارے مسائل نے بلوچستان میں جنم لیا لیکن کچھ دن شور شرابہ ہوا بعد میں یہ سارے مسئلہ آہستہ آہستہ دب کر نیست و نابود ہونے لگے۔
طالب علموں پر جبر کے اِس تسلسل میں جہاں ایک جانب سکیورٹی ادارے براہ راست ملوث ہیں تو دوسری جانب گذشتہ چند ادوار میں سکیورٹی اداروں کی پشت پناہی میں کام کرنے والے مسلح گروہوں نے طالب علموں کےلیے دہشت کی ایک ماحول بنا رکھی ہے۔
بلوچستان میں اگر ہمارے ساتھ حکمران وقت نہیں ، اس ریاست کا آئین نہیں ، سرکار کا قانون نہیں لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اگر ریاست کی طاقت کو جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے استعمال نہیں کرسکتے لیکن ہم عوامی طاقت سے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوکر یکجہتی کرسکتے ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال کی کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کون ایک نئی داستان کی حصہ بن جاتا ہے۔ میرا یہ کوشش ہے کہ جو ظلم و بربریت کی آگ بھڑک چکی ہے اس کو تیل چھڑکنے سے گریز کروں اور بلوچستان میں بلوچوں کی غیر محفوظی اور جعلی مقابلوں میں قتل کی سنگین مسئلوں سے دنیا کو آگاہ کر سکوں کیونکہ جب کچھ لکھنے کی بات آتی ہے تو دلائل کے ساتھ حقائق کو سامنے لانے سے کوئی رعایت نہ ہو اور قلم کی زبان ہمیشہ ریاست کی اصلیت کا پردہ پاش کر دیتا ہے یہ داستانیں راست گوئی پر مبنی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں