بلوچستان اور اس کے بے بس سیاستدان – تھولغ بلوچ

547

بلوچستان اور اس کے بے بس سیاستدان

تحریر: تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنے ہوۓ ابھی دو دہائیاں ہی ہوئی تھیں جب بلوچستان کو ایک صوبے کا درجہ ملا یہ اس وقت کی بات ہے جب 1970 ء میں ہونے والے انتخابات میں نیپ کو بلوچستان بھر میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس پارٹی میں بلوچستان کے نامور سردار اور قبایلی رہنما سردار عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری ، میر غوث بخش بزنجو شامل تھے اور کے پی کے میں بھی بھاری اکثریت سے نیپ کو کامیابی ملی جس سے نیپ نے بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی حکومتیں بنائیں یہ حکومتیں بمشکل آٹھ مہینے تک چل پائیں۔

بقول سردار عطاء اللہ مینگل کے صرف آٹھ مہینے کی حکومت کے عوض ہمیں پانچ پانچ سال تک جیلوں میں گزارنے پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان اور ملک کی تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جو صاف و شفاف ہوا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی رہی جس سے سیاست دان خوش بھی تھے اور بے بس بھی تھے انہوں نے اپنی اہلیت گنوا دی صرف اور صرف مہرے بن کے اسمبلی میں آتے تھے اور اپنے پیٹ کی خاطر کام کرتے رہتے تھے عوام سے ان کا کوئی غرض نہیں تھا۔

1970ء کی دہائی میں آنے والی حکومت نے بلوچستان کی تاریخ کا سب سے پہلا بڑا تعلیمی ادارہ کوئٹہ کے علاقے سرياب روڈ پر یونیورسٹی اف بلوچستان کے نام سے بنیاد رکھی، جو بلوچستان کی تاریخ کا پہلا بڑا تعلیمی ادارہ تھا اور ایک میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج کے نام سے کوئٹہ میں تعمیر کروایا ، کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی اس قومپرست حکومت نے بلوچستان میں جو کام آٹھ مہینے میں کیۓ وہ بلوچستان کی پوری تاریخ میں کسی اور حکومت نے نہیں کیۓ اب تک بھی ،
بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچستان بھر سے طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسی تعلیمی ادارے کا رخ کرتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں طلبہ یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ سلسلہ 1970 سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے یہاں سے سیاست دان بھی پڑھ کے نکلے ہیں ، اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افیسر بھی اسی یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلے ہیں یہ یونیورسٹی سالوں سے بلوچستان میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

اسی یونیورسٹی میں مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مختلف طریقوں سے ہراساں بھی کیا جاتا رہا ابھی حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کو ہراساں کیا گیا یہ بھی بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن کو روکنے اور لڑکیوں کو معاشرے میں ایک عمدہ رول ادا کرنے کے لیے روکنے کی ایک ناکام کوشش تھی تاکہ بلوچستان کی بیٹیاں صرف گھروں تک محدود رہ جائیں۔

نومبر 2021ء کو بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علم فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ جو یونیورسٹی میں مطالعہ پاکستان کے سٹوڈنٹس تھے جن کو یونیورسٹی کے بوائز ہوسٹل سے لاپتہ کیا گیا ہے یاد رہے یہ دو طالب علم بوائز ہوسٹل کے 17 بلاک میں رہتے تھے یہ بلاک حال ہی میں تعمیر ہوا ہے جس میں صرف مطالعہ پاکستان کے ہی طلبہ کو رکھا جا رہا تھا اسی ہوسٹل کے بلاک سے ان دو طالب علموں کو لاپتہ کیا گیا تھا، انہی طلبہ کی بازیابی کے لیے یونیورسٹی کے باقی طلبہ و طالبات نے احتجاجا یونیورسٹی کی کلاسز اور امتحانات سے بائیکاٹ کر دیا اور یونیورسٹی کے تمام گیٹ بند کر دیے۔ تمام سرگرمیوں کے لیے کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی ، اسی تناظر میں بلوچستان حکومت کے سردار کھیتران نے ایک 3 ركنی کمیٹی بنائی اور احتجاج پے بیٹھے طلبہ و طالبات کو ساتھی طلبہ کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن جس وقت کی مہلت مانگی گئی، اس وقت میں طلبہ کو بازیاب کرانے میں ناکام ہوئے، یہ کمیٹی بھی بے بس نظر آتی ہے۔

بلوچستان کے سیاست دانوں کی بے بسی یہاں نذر آ رہی ہے کہ وہ دو لا پتہ طالب علم بازیاب نہیں کروا سکتے ، گزشتہ 15 دنوں سے احتجاج جاری ہے کوئٹہ کی اس یخ بستہ سردی میں طلبہ و طالبات دن رات اپنے ساتھوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں حکومت بے بس نظر آتی ہے،

جس طرح كابلی گاڑی پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں تک نہیں جا سکتی صرف بلوچستان تک محدود ہے اسی طرح بلوچستان کے سیاست دان اور بھی صرف اپنے علاقوں تک محدود ہیں یہ لوگ اور ان کی گاڑياں بھی اسلام آباد نہیں جا سکتیں _


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں