اپنے ہاتھ فقیروں کے سُپرد کرو ۔ محمد خان داؤد

197

اپنے ہاتھ فقیروں کے سُپرد کرو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ سندھ سے بہت دور بستے ہیں۔ پھر بھی سندھ ان کی جانب تکتا ہے
وہ شالہ کی پہاڑیوں میں بھی نہیں پر پھر بھی بلوچستان کے پہاڑوں کے سر فخر سے بلند ہیں
وہ پنجاب میں نہیں پر اب محسوس ہوتا ہے کہ کسان رہنمااشفاق لنگڑیا کا کیس یہی لڑیں گے
اس وقت توخیبرپختون کی شمالی وزیرستان کی میران شاہ نامی بستی میں بستے ہیں۔پر انہیں دیکھ کر پہاڑوں،صحراؤں،سمندروں،نخلستانوں،ویرانوں،کھلیانوں اور پتھروں کا دل بھی دھڑک اُٹھتا ہے
وہ اُمید ہیں،وہ اُمید ہو کر آئے ہیں
بظاہر ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں یدِ بیضا ہے
بظاہر ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے مسیح ہیں
بظاہر ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں پر محسوس ہوتا ہے کہ وہی یسوع ہیں اور ان کے پاس ہی نجات ہے!
بظاہر ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں پر جب کتے ان پر بھونکتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہی قلندر ہیں!
بظاہر ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں پر ہم ان کے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں عوام کا ہاتھ ہے چاہیے وہ عوام میران شاہ کی ہو چاہیے قلعہ سیف اللہ کی،چاہیے شالہ کی چاہیے شہرِ اقتدار کی
چاہیے کراچی کی میلی بستی کی چاہیے لاہور کیاانقلابیوں کی!
ان کے ہاتھوں میں عوام کا ہاتھ ہے
اور وہ ہاتھ اکیلے نہیں!
ان کے ہاتھوں میں ان عوام کا ہاتھ ہے جو بار بار کٹا ہے
اور بار بار گلابوں کی مانند اُگ آیا ہے
وہ ہاتھ جو ایک دن پھانسی گھاٹ پر پھانسی پر جھول جاتے ہیں
اور دوسرے دن سُرخ گلابوں کی مانند اُگ آتے ہیں
وہ ہاتھ جو مظلوموں کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھوں جو مظلوم ماؤں کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھ جو مظلوم بوڑھے باباؤں کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھ جو مظلوم بیٹوں کے ہاتھ ہیں جن کے وجود تو سنگلاخ سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں پر ان کے ہاتھ ان فقیروں کے ہاتھوں میں ہیں!
وہ ہاتھ جو منتظر ہیں
وہ ہاتھ جو دید کو بے تاب ہیں
وہ ہاتھ جو اب اپنوں سے ملنا چاہتے ہیں
وہ ہاتھ جو اپنوں کو بانہوں میں بھرنا چاہتے ہیں
وہ ہاتھ جو ماؤں کو بغلگیر ہونا چاہتے ہیں
وہ ہاتھ جو گم ہیں
وہ ہاتھ جو اسیر ہیں
وہ ہاتھ جو غم میں ہیں
وہ ہاتھ جو ان مسافر بہنوں کے ہاتھ ہیں جن کے پیر مشکل سفر میں ہیں
پر ان کے ہاتھ ان فقیروں کے ہاتھوں میں ہیں
وہ ہاتھ جو اپنے ساتھ اپنے گم شدہ بھائیوں کی مٹتی تصویر والی تصاویر لیے سراپا احتجاج ہیں
وہ ہاتھ جو ایک ہاتھ سے گرتا دوپٹہ سنبھالتی ہیں
دوسرے ہاتھ میں بینر اور تصویر لیے سفر کر رہی ہیں
اور ان کے ہاتھ ان فقیروں کے ہاتھوں میں ہیں
وہ ہاتھ جوان بیٹوں کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھ جن ہاتھوں کی پشت جل رہی ہے
اس لیے کہ ان ہاتھوں کی پشت پر بابا نے آخری بار یہ کہہ کر چومہ تھا کہ
”میں جلد لوٹ آؤ نگا!“
پھر نہ وہ بابا لوٹا
پھر نہ وہ ہاتھ لوٹے
نہ وہ پیر لوٹے
اور نہ ہی وہ وجود جو کسی کی روح کا چین تھا اور کسی کی آنکھوں کی راحت!
سب پیچھے رہ گیا اور سفر بڑھ گیا اور سفر بھی ایسا بڑھا کی اب تک تمام نہیں ہوا
تو ایسے سب ہاتھ جو ہاتھ دردوں کے ما رے ہیں جو ہاتھ خود اشک بار رہتے ہیں جو ہاتھ خود گریاں و زاری کرتے ہیں۔جو ہاتھ خود سینہ کوبی کرتے ہیں۔جو ہاتھ آنکھیں رکھتے ہیں۔جو ہاتھ احساس رکھتے ہیں۔جو ہاتھ دید رکھتے ہیں جو ہاتھ منتظر ہیں دید کے وہ سب ہاتھ ان فقیروں کے ہاتھوں میں ہیں جو اب بس آخری اُمید ہیں!
وہ ہاتھ جو آئینہ ہیں
وہ ہاتھ جو اُمید کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھ جو نئی صبح کے ملن کے ہاتھ ہیں
وہ ہاتھ جو فریب یار نہیں
وہ ہاتھ جو دید یار ہیں
وہ ہاتھ جو پاس نہیں
پر پھر بھی ان ہاتھوں میں اپنی سی قربت ہے
وہ ہاتھ جو منزل ہیں
وہ ہاتھ جو داد رسی ہیں
وہ ہاتھ جو گیلی آنکھوں س اشکوں کو صاف کرتے ہیں
وہ ہاتھ جو بوڑھی ماؤں کی تکھی ماندی جوتیاں درست کرتے ہیں
وہ ہاتھ جو بہنوں کے سروں پہ سے گرتی چادریں ٹھیک کرتے ہیں
وہ ہاتھ جو میران شاہ میں ہیں
پھر بھی محسوس ہوتا ہے وہ ہاتھ میرے من میں ہیں!
”تماشہ کہ اے محوِ آئینہ داری!“
وہ ہاتھ دردیلی دل کا آئینہ ہیں!
وہ جو اس ملک میں کسی کو بھی نظر نہیں آتا وہ انہیں نظر آتا ہے۔وہ جو دردوں کے بیچ پلے بڑھے اور اب خود چاہتے ہیں کہ مزید کوئی دردوں کا کاروبار نہ کرے!
وہ جو بار بار بارودی سرنگوں سے بچتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب کسی کا پیر بارود سرنگ پر نہ پڑے!
وہ جن کی وردی والے بار بار توہین کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اب کسی کی مزید توہین نہ ہو
وہ جو بار بار صوبہ بدر کیے جا تے ہیں پر اب یہ چاہتے ہیں کہ اب کوئی صوبہ بدر نہ کیا جائے
وہ جن کے گریبان پکڑے جا تے ہیں
وہ جن کو گالیاں پڑتی ہیں
وہ جنہیں غدار کہا جاتا ہے
وہ جو فقیر ہیں اور کتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا تے
وہ جو اُمید کا ٹمٹاتا دئیا ہیں
وہ دیا آندھیوں کی لپیٹ میں ہے
اور اس دئیے کو وہ ہزاروں ہاتھ بجھانے سے بچا سکتے ہیں جو عوام کے ہاتھ ہیں!
اگ ہم چاہتے ہیں کہ اب کوئی گولی کسی کے سینے کو پار نہ کرے
کوئی ماں کسی سے اپنے گم شدہ بیٹے کا پتا نہ پوچھتی پھرے
اب کوئی بیٹی بن بابا کے جوانی کی دہلیز کو نہ پوچھے
اب کوئی اشافق لنگڑیا بس اس لیے قتل نہ ہو کہ وہ اپنا حق چاہتا تھا اور اس کی بیٹی بابا کی میت پر ماتم کرتی نہ رہ جائے
تو آئیں اپنے ہاتھ ان فقیروں کے ہاتھوں میں دے دیں
پر یاد رکھیں فقیروں کے راہ میں کتے بھونکتے ہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں