انصاف کے ادارے اور بلوچ لاپتہ افراد کا کیس
تحریر: داد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان پر قابض ریاست پاکستان اور اسکے تمام ادارے (عسکری، عدالتی، پارلیمانی) بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ ایک پیج پر رہے ہیں اور آج بھی ایک ہی پیج پر ہیں. یہ تمام ادارے بلوچستان کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں. لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طاقت سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے بلکہ طاقت سے مسلہ مذید گھمبیر ہوجاتا ہے.
ستر سالوں سے بلوچستان پر طاقت کا استعمال کیا گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا، بلوچستان کے عوام کی مزاحمت ایک نئے سرے سے منظم ہو کر سامنے آئی اور آج اس ریاست کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان کے مزاحمتی جنگ کو ختم کرنا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے مزاحمت کم ہوسکتی ہے لیکن اسے ختم کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.
ہر باشعور فرد بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کے ادارے اور محکمے سب کرپشن کی آماجگاہ ہیں اور ان کا مائی باپ عسکری ادارہ ہے جس نے کرپشن الائنس کی تشکیل کا انتظام کرکے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے دیگر اداروں کا استعمال کیا ہے. پارلیمنٹ سے لے کر انتظامی امور، سیاست سے لے کر عدالتی امور سب انکے ہاتھ میں ہے. ان کے حکم کے بغیر پاکستان میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا.
جب کوئی صحافی، سیاستدان ان کے عزائم آشکار کرتا ہے یا ان پر تنقیدی نشتر برساتا ہے تو اس کا کیا حال کیا جاتا ہے اس کے بارے میں پاکستان میں بسنے والے افراد بخوبی واقف ہے، حامد میر، نواز شریف، جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس وقار سیٹھ ان کا انجام کیا ہوا اور کس نے کیا اس بات سے بھی سب واقف ہیں۔
آج عمران خان حکومت کی مثال لیجئیے اختلافات واضح ہونے کے بعد سیاسی انجینئرنگ کا نیا کھیل شروع کیا گیا ہے، جس کی سربراہی کرپشن کے مائی باپ کررہے ہیں. سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ میں سیاسی انجینئرنگ کا کھیل پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے جبکہ بلوچستان تو دو عسکری محکموں کی آپسی جنگ کا شکار ہے.
گذشتہ روز سابق چیف جج گلگت بلتستان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان پر الزام لگایا کہ انہوں نے نواز شریف اور مریم صفدر کو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک باہر نہ نکالنے کی درخواست کی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام سازشوں کے پیچھے کرپشن الائنس کا ہاتھ ہے جس نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی لوٹوں کی فوج جمع کرکے رکھی ہوئی ہے اور جنہیں بوقت ضرورت استعمال کرکے اپنے من پسند لوگوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا جائے گا.
چیف آئی ایس آئی کے معاملے پر حکومت سے اختلاف کے بعد اب کرپشن الائنس نئی سیاسی جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہے جس طرح نواز شریف کو ہٹانے کے لئے تبدیلی حکومت کو لایا گیا اور اب تبدیلی حکومت کو تبدیل کرنے کے لئے نئے مہروں کو لایا جائے گا یا پرانے مہروں کو پالش کرکے دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا جائے گا.
بلوچستان کا اہم مسئلہ قومی تشخص کا مسئلہ ہے. باقی جتنے بھی مسئلے ہیں وہ اہم مسئلے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں. مسنگ پرسنز کا مسئلہ انتہائی تشویشناک مسلہ ہے، جس کا آغاز اسد اللہ مینگل سے شروع ہوا جو تاحال جاری ہے. اس میں شدت ذمہ داری حکومت میں آئی، نواز اور عمران حکومت میں بھی یہ عمل جاری و ساری ہے. جبری گمشدگی کے مسئلے سے دوچار خاندانوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے تمام پر امن ذرائع کو استعمال کیا. کمیشن کے سامنے پیش ہوئے لیکن لاپتہ افراد کا مسلہ حل ہونے کے بجائے روز بہ روز شدت اختیار کرتا جارہا ہے.
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز 4500 دنوں سے احتجاج کررہی ہے لیکن پاکستان کے انصاف کے ادارے انصافیوں کی حکومت میں بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہے اور قاصر ہی رہیں گے کیونکہ بلوچ بھی جانتے ہیں اور حکومت میں براجمان لوگ بھی جانتے ہیں کہ ہم یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے کیونکہ جبری گمشدگی میں ملوث عناصر ہمارے مائی باپ ہیں اور ہم ان کے خلاف جا کر اپنی زندگی عذاب نہیں بناسکتے.
عدالت انہی کے حکم سے فیصلے صادر فرماتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ جبری گمشدگی سے متاثرہ خاندان کیوں پاکستانی اداروں سے آس لائے بیٹھے ہیں کہ یہ ادارے ہمارے پیاروں کو بازیاب کرائیں گے جو خود ہی لاپتہ ہیں ان طاقتور فوجیوں کے ہاتھوں.
پاکستان کے عسکری ادارے بلوچ لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بجائے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں شہید کرکے انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مسنگ پرسنز کیس کو متنازعہ بنا کر خود کو بری الزمہ قرار دیا جاسکے.
پاکستان کے تمام ادارے اور محکمے بلوچ کے خیر خواہ نہیں بلکہ وہ بلوچ قوم کو ختم کرکے سر زمین کے وسائل ہتھیانا چاہتے ہیں.
بلوچ جبری گمشدگی کے شکار افراد پاکستانی اداروں سے اپیل کرنے کے بجائے اپنی آوازوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کریں اور اپنے احتجاج پریس کلب یا شاہراؤں کے بجائے کور کمانڈر آفس کے سامنے کریں کیونکہ لاپتہ کرنے والے اور زیادتی کا نشانہ بنانے والے یہی ہیں، باقی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ انہی کے حکم کے غلام ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں