یونیورسٹی آف تربت میں ترجمہ نگاری کی اہمیت اور بلوچی ادب میں ترجمہ نگاری کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار

206

انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر یونیورسٹی آف تربت کے زیراہتمام “ترجمہ نگاری کی اہمیت اور بلوچی ادب میں ترجمہ نگاری” کے موضوع پر بروزِ پیر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار دو سیشن پر مشتمل تھا۔

انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور ثقافت کی ترقی و ترویج اور درس و تدریس میں کردار ادا کر رہی ہے۔

افتتاحی سیشن کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا، اور انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر یونیورسٹی آف تربت کے سربراہ پروفیسر عبدالصبور بلوچ نے استقبالیہ خطاب پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ تربت کے انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔

پروگرام میں مہمان خصوصی جامعہ تربت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد اور ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد سے منسلک محبوب بگٹی تھے۔

جامعہ تربت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”ترجمہ نگاری ایک فن ہے، اس سے قوموں کی علمی میراث میں اضافہ ہوجاتا ہے، زندہ قومیں اپنی علمی میراث کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ اس میں اضافے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں۔”

محبوب بگٹی نے کہا کہ “جامعہ تربت نے ایک اہم موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا ہے، ترجمہ سے دوسری اقوام کی تخلیقی ادب اور تہذیب سے ہم روشناس ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترجمہ نگاری سے دنیا بھر میں فکری اور علمی پیش رفت اور ادبی منظرنامے سے آگاہی ملتا ہے، ترجمہ ان انتہائی موثر وسیلوں میں سے ایک ہے جس سے دور دراز کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور تمدن کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر جامعہ تربت کا سیمینار اہمیت کا حامل ہے اور ایک احسن قدم ہے۔

دوسرے سیشن میں بلوچ اسکالز  نے اپنے مقالے پیش کیے، بلوچی زبان کے نامور ادیب شرف شاد، بلوچی زبان و لسانیات اور ترجمہ نگاری کے ماہر پروفیسر طارق رحیم نے اپنے مقالے پیش کیے۔

بلوچی زبان و ادب کے نامور ادیب اے آر داد، پروفیسر طاہر حکیم کے ساتھ چالیس کے قریب بلوچ اسکالز نے اپنے مقالے پڑھے۔ ان مقالوں میں ترجمہ نگاری کی افادیت پہ روشنی ڈالی گئی۔

یونیورسٹی آف تربت کے ہال میں منعقد اس سیمینار میں مختلف مکتبہ فکر کے افراد، طلباء و طالبات، اساتذہ کرام، ادباء، شعراء اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کیں۔