بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں ہوشاب واقعہ میں جاں بحق بچوں کی میتیں لے کر لواحقین کا دھرنا آج چوتھے روز جاری رہا –
اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر نے لواحقین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبات تسلیم نہ ہونے صورت میں اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا –
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ایک خاندان جس کے سات افراد پہلے ہی ماروائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں اور اب اسی خاندان کے دو اور بچے سیکورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے مارٹر گولے سے شہید ہو چکے ہیں۔ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس خاندان کے بزرگ تربت سے کوئٹہ شدید مشکل حالات میں آئے ہیں، جنہیں زبردستی روکنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
وہ تربت سے کوئٹہ اس امید کے ساتھ آئے تھے کہ اگر تربت میں صحافی حضرات کو آنے اور کوریج کرنے میں مشکلات درپیش ہیں تو وہ کوئٹہ آئیں گے تاکہ یہاں ان کی فریاد کو سنا جا سکیں کیونکہ ان کے خاندان کو گزشتہ کئی سالوں سے ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ چند میٹر کی دوری پر بیٹھے صحافی حضرات ان بچوں کے لاشوں کو کوریج دینے میں ناکام ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان بلخصوص مکران میں صرف گزشتہ ایک سال میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں سنگین انسانی حقوق کے پامالیوں کے درجنوں واقعات سرزد ہوئے ہیں۔جس میں ماروائے عدالت لوگوں کی جبرگمشدگیاں، بغیر کسی وارنٹ گھروں میں چھاپے جس میں چادر و چار دیواری کی پامالیاں، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ سے لیکر بلوچ خاتون تاج بی بی تک لوگوں کو دن دھاڑے بیچ چوراہے پر فائرنگ کرکے قتل کرنا اور عام آبادیوں پر اندھادھند فائرنگ یا مارٹر گولے فائر کرنا آئے روز کی واقعات ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور خاص کر ایف سی کو مکمل طور پر چھوٹ دی گئی ہے جس سے آئے دن سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رونماء ہو رہی ہیں۔جو واقعات میڈیا کے آنکھوںسے اوجھل ہیں وہ الگ مگر جن کے خاندانوں نے دھونس و دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے لواحقین کی قتل کے خلاف آواز اٹھائی ہے وہ واقعات انگنت ہیں۔ اب لوگ اپنے بے گناہ لوگوں کے لاشوں کو دفنانے سے تھک گئے ہیں اور یہ سلسلہ کسی بھی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس لیے اب بلوچوں نے اپنے لاشوں کو دفنانے سے انکار کر دیا ہے۔
واجہ محراب جس کے نواسوں کی لاش گورنر ہاؤس کے سامنے پڑے ہوئے ہیں انہوں نے اپنے خاندان کے پہلے ہی بہت سے افراد کی لاش ایسے ہی دفنایا ہےمگر اب وہ انصاف چاہتے ہیں اور انصاف کے بغیر اپنے بچوں کی لاشیں دفنانے سے انکاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محراب نے تربت میں اللہ بخش اور شرھاتون کی لاشوں کے ہمراہ تین دن تک احتجاج کیا مگر وہاں انتظامیہ اور ڈی سی کا کردار لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ایف سی کی ترجمانی کرنا، لوگوں کو دھمکی دینا اور انہیں خاموش کرانے کیلئے لالچ دینا تھا۔ جب لواحقین کوئٹہ پہنچے اور انصاف کیلئے اپنے مطالبات پیش کیے جن کے مطالبات بنیادی اور ملکی آئین و قانون کے مطابق ہیں۔
مگر کوئٹہ میں پچھلے چار دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات عمل میں نہیں لائے گئے۔ حکومت کے رویے اور غیر سنجیدگی سے یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ حکومت ملکی آئین اور قانون کے مطابق مسائل کو حل کرنے اور شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکا ہے۔ ریاست کی بے حسی کو دیکھ کر لواحقین سمیت احتجاج کی حمایت کرنے والے تمام قوتوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ حکومت کو 24 گھنٹے کا مہلت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ 24 گھنٹے کے بعد لواحقین انصاف کیلئے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور دھرنا اسلام آباد میں دیا جائے گا۔
اس ضمن میں ہم حکومت سے ایک مرتبہ پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبات تسلیم کریں ورنہ اس کے سنگین نتائج کی زمہ داریاں حکومت پر عائد ہونگی۔ ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے بلوچستان بھر کے عوام، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹیز، طلبہ تنظیمیں، ڈاکٹرز وکلاء برادری غرض کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی خاموشی کو ختم کرکے پرامن احتجاج کا حصہ بن کر اس مظالم کے خلاف آواز بلندکریں۔
آخر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان بھر کے عوام اور سیاسی قوتوں سے اپیل کرتی ہے شہدائے ہوشاپ کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کل اپنے اپنے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کریں اور کوئٹہ شہر کے اہم شاہراؤں کو آمد و رفت کے لیے مکمل طور پر بند کیا جائے۔