ہرزہ سرائی اور اس میں دم لیتی سیاسی عمل
تحریر: آصف بلوچ
مرکزی سیکرٹری جنرل بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی
دی بلوچستان پوسٹ
پروپیگنڈہ عام اصطلاح میں ایک ایسے عمل کا نام ہے جہاں کوئی بھی قوت آیا وہ مزاحمتی ہو یا کہ نو آبادیاتی، سیاسی ہو یا کہ مذہبی، رجعتی ہو یا کہ ترقی پسند چاہے کسی بھی افکار یا ایجنڈے پر عمل پیرا کوئی بھی گروہ کیوں نہ ہو خود کے فکر ، نظریے اور ایجنڈے کی ترویج کےلیے مختلف طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا موقف عام عوام تک پہنچاتی ہے۔ پروپیگنڈے کا بنیادی محرک عوام تک خود کو سر کرتے ہوئے انھیں اپنی جانب مائل کرنا ہوتا ہے اور اِس عمل کا منطقی فیصلہ عوام کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے کہ عوام کسی قسم کے پروپیگنڈے پر کس طرح کی رد عمل دیتی ہے۔ ایسی تمام قوتیں جن کی پروپیگنڈہ عوامی مزاج ، نفسیات اور معروضی حقائق سے متضاد ہوں تو یہ پروپیگنڈے ترویج جیسے عنصر سے قاصر رہ جاتی ہیں۔ لہذا عام الفاظ میں پروپیگنڈہ ذہن سازی کا ایک ایسا عمل ہے جس میں تمام قوتیں انسانی شعور کو روندتے ہوئے لاشعور میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس عمل کی راہ میں سیاسی شعور ہی وہ آہنی دیوار ہے جو تمام پروپیگنڈوں کو شعور کی جامع کسوٹی میں پرکھ کر کلیدی راہ کے چناؤ میں کمک کار بن جاتا ہے۔
لہذا! پروپیگنڈہ کا ایک پہلو خود کے عمل ، فکر اور نظریات کی ترویج ہے جبکہ اِس کا دوسرا پہلو دلائل اورمنطق کے بنیاد پر مخالف قوتوں کو بھی رد کرنا مقصود ہوتا ہے۔ پروپیگنڈہ کا جو پہلو بلوچ سیاسی منظر نامے میں ہمیشہ ہی تذبذب اور مبہم رہا ہے وہ دوسرا ہی ہے کیونکہ بلوچ سیاسی منظر نامے میں تمام قوتیں یا کاسہ لیس مخالف قوتوں کے خلاف دلائل یا منطق کے بجائے الزام تراشی،کردار کشی، بے جا تنقید اور کیچڑ اچھالنے جیسے عمل کو خود کی تشہیرسے تشبیح دیتے ہوئے اپنے جیسے گماشتوں سے داد وصول کرتے ہیں۔ ایسے عمل نہ تو تنظیمی ہیں اور نہ ہی ان کو تنظیمی تشہیر سے کسی قسم کا سروکار ہے بلکہ ایسے تمام اعمال کو مخالف قوت کے خلاف ہرزہ سرائی کے طور پر گردانا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جہاں آئے روز عام سیاسی اصطلاحات کے ساتھ کھلواڑ کی جاتی ہے ۔تنقید کے نام پر ذاتی زد ، انا اور ہٹ دھرمی کی تسکین جاتی ہو اختلاف رائے کا نام پر کردار کشی ، گالم گلوچ اور بیہودہ القابات سے نوازا جاتا ہو قوم دوستی اور قومی مفاد کے نعرے لگاتے ہوئے ذاتی ، گروہی اور قبائلی مفاد کو جلا بخشی جاتی ہو، نینشلزم جیسے واضح نظریے کے ساتھ کئی لاحقے اور سابقے کا استعمال کر کے خود کی مفروضات کے سامنے ڈھال بنایا جاتا ہو تو اس اثنا میں اِن تمام قوتوں ، گماشتوں اور کاسہ لیسوں سے تشہیر کے نام پر ہرزہ سرائی جیسے عوامل کی توقع رکھنا بھی بے جا نہ ہو گا۔
جہاں کسی بھی گروہ کی جانب سے مخالف قوت کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا بنیادی محرک تشہیر کے بجائے ہرزہ سرائی ہو تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تشہیر کے نام پر ہرزہ سرائی اور اختلافات کے نام پر الزامات کا بنیادی مقصد کیا ہے؟اِس عمل میں کونسے عوامل کارفرما ہیں؟ ایسے رجحانات سیاست اور سیاسی عمل پر کیا اثرات مرتب کریں گی؟ اس صورت حال میں ایک سیاسی کارکن کونسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ بلوچ طلبا سیاست میں ہمہ وقت ایسے گروہوں اور قوتوں نے وجود رکھا ہے جنھوں نے اختلافات کے نام پر پروپیگنڈہ اور پروپیگنڈۃ کے نام پر ہرزہ سرائی جیسے ہربوں کو آزمایا ہے لہذا ایسے وقت میں مذکورہ بالا سوالات اور اِن پر مباحثہ نہایت ہی ضروری ہوتا جا رہاہے۔
انسانی نفسیات ہمیشہ ہی سے اس امر کی دلیل رہی ہے کہ جب انسان خود عمل کرنے سے قاصر ہو، ذمہ داریاں پورا کرنے میں اُس کا وجود یا فکر دقت کا شکار ہو،راہ راست اور عملی پیمانے کے کسوٹی میں خود کو پرکھنے سے خوفزدہ ہویا عام فہم میں راہ ءِ فرار اختیار کرنے کی کوششوں میں مگن ہو اوروجودی بحران کا شکار ہو تو خود کی وجود کو برقرار رکھنےاور اپنے ضمیر کو مطمئین کرنے کےلیے عملی فرد ، ادارہ یا اجتماع کے خلاف جوازات گھڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسی تمام قوتوں کا وجود عمل کے بجائے رد عمل سے وابستہ ہوتا ہے۔ عمل کے بجائے رد عمل پر وجود کو برقرار رکھنے والوں کی مثال اُس مٹی کے تودے کی ہے جو ساکن ہے اور ہواکا ایک جھونکا انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔رد عمل پر یقین رکھنے والے افرادکا وجود دیگر کے عمل سے بندھا ہوتا ہے اور ان افراد کی نظر دیگر کے عمل پر مرکوز ہوتی ہیں تاکہ نکتہ چینی ، بے جا تنقیداور ذہنی اختراعات کی تسکین کے لیے جواز گھڑے جا سکیں۔ ایسے افراد نہ تو تنظیمی کہلایے جا سکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی عمل سے انھیں کسی قسم کا سروکار ہوتا ہے بلکہ اِن کے بنیادی مقصد دیگر کے راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا ہوتا ہے۔
رد عمل پر خود کی وجود کو برقرار رکھنے والے افراد جہاں سیاسی عمل پر تنقید کے نام پر طنزکرتے ہوئے اپنے ذہنی اختراعات کی تسکین کرتے ہیں وہیں ذاتی ضد ، انا اور بغض کو سیاسی اختلافات کا نام دے کر ذمہ داران اور عہدیداران کی کردار کشی کی جاتی ہے۔سیاسی اختلافات کے نام پر عملی کرداروں پر الزام تراشی کرنا،اُن کے ذات پر کیچڑ اچھالنا ، دلائل نہ ہونے کے باعث گالم گلوچ کا سہارا لینا اور خود کی ساکھ کو بچانے کےلیے دیگر کے ذاتیات پر اتر آنے کا بنیادی مقصد اراکین کو ذمہ داران اور عہدیداران سے بدظن کرنا، شکوک و شبہات کو پروان چڑھانا، فکر اور سوچ کو مبہم کرنا ، تنظیم اور ارکان کے درمیان قائم رشتے کو کمزور کرنا مقصود ہوتا ہے۔ایسی قوتوں کےشکارافراد سیاسی حوالے سے بانجھ پن کا شکار بن جاتے ہیں اور عمل سے عاری ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک جانب یہ گروہ افراد کو عمل سے عاری کر دیتا ہے وہیں انھوں نے ایک جتھے کی تشکیل دی ہوئی ہوتی ہےجہاں ایسے تمام افراد جوعمل سے عاری ہوں، فراریت کی راہ اختیار کیے ہوئے ہوں، خود کے افکار سے پھرے ہوئے ہوں اور اسی اثنا میں وجودی بحران کا شکار ہوں تو مذکورہ جتھے ان کے ذات کو تسکین بخشنے کےلیےانھیں پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے ۔
سیاست میں ایسے رجحانات کا پرورش پانا اور عمل کے بجائے کارکناں کو ردعمل کی جانب راغب کرنا بلوچ قومی سیاست کےلیے ایک المیہ ہے۔بلوچ طالبعلموں کو سیاسی عمل سے دور کرنے کےلیے منظم طریقے سے یا تو بدظن کیا جارہا ہے یا انھیں ردعملی سیاست کا حصہ بنا کر بانجھ بنایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے سیاسی کارکنان جو اپنے ماضی میں زندہ ہیں وہ ماضی کو حال کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی نہایت روشن اور تابناک تھا اور ماضی میں انھوں نے ایسے کارنامے سرانجام دیے جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے بقول ہر چیز ماضی تھا اور حال میں تو کچھ ہے ہی نہیں کیونکہ اِن کا وجود ماضی کے ساتھ بندھا ہوا ہے توایسی قوتیں ماضی کو کیونکر گلیمرائز نہیں کریں گے۔ماضی میں زندہ رہنے والے یہ عظیم کرداریں شعوری یا لاشعوری طور پر بلوچ نوجوانوں کو مایوسی کے کرنوں سے مستفید کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے تمام قوتوں اور گروہوں کا ادراک تمام سیاسی کارکنان کےلیے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اس عمل میں شریک جتھا ، گروہ یا فرد ہ خود متنازع کردار کے حامل ہوتے ہیں۔اِس عمل میں شریک تمام عناصر راہ فراریت اختیارکرچکے ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کا عمل اُن کے آنکھ کو کھٹکتی ہے جس کے باعث وہ الزام تراشی اور گالم گلوچ کا سہارا لیتے ہوئے عملی کرداروں کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے تمام قوتوں اور رجحانات کی بیخ کنی معروض کی ضرورت ہے ۔
پروپیگنڈہ کرنے والی تمام قوتیں ہمیشہ ہی انسانی اجتماع یا فرد کے “ویک پوائنٹ”پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا ویک پوائنٹ عمل سے دستبرداری ہی ہےجس کےلیے ہم چند الزامات اور جوازوں کے انتظار میں ہوتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک قومی المیہ ہے کیونکہ ایسے عمل ہمارے شعوری پختگی ،سیاسی بالیدگی اور تنظیمی رشتے پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں