گوادر میں ترقی کے نام پر عوام کی تذلیل
تحریر:جلال احمد
دی بلوچستان پوسٹ
گوادر بلوچستان کا ایک شہر ہے اور گوادر کو پوری دنیا اچھی طرح سے جانتا ہیں کیونکہ یہ ایک ایسے پوائنٹ پر موجود ہے کہ پوری دنیا کی تجارت کا مرکز بن سکتا ہے ۔اسی لے پوری دنیا کی آنکھیں گوادر پر ہیں۔
گوادر پورٹ پوری دنیا میں مشہور ہے اور گوادر کی ترقی کی بات پھیل رہی ہے۔ لیکن گوادر کی ترقی کو حکمران کچھ ایسا دیکھاتے ہیں کبھی وه کرکٹ اسٹیڈیم بنا کر اس کی تصویریں کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں کبھی گوادر پورٹ کی تصویر کھینچ کر دنیا کو دکھاتے ہیں۔
کبھی گوادر کو مشہور کرنے کےلیے بلوچ طالب علموں کو اسٹیڈیم میں تصویر کھینچنے کے لیے بُلاتے ہیں اور تصویر کھچنے کے رسم کے بعد انہیں بھوکا اور پیاسا واپس پیدل گھر کے لیے روانہ کرتے ہیں۔ گوادر تو سوشل میڈیا میں دبئی اور سنگاپور جیسا بن گیا ہے لیکن حقیقت میں کچھ اس طرح ہے کہ گوادر کے شہری پانی کی بُوند کے لیے ترس رہیں ہیں وه بغیر بجلی کے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو گوادر کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ یہاں کے لوگ بے روزگاری کی وجہ سے خودکُشی کر رہے ہیں چونکہ یہاں کے لوگوں کو تین وقت کی روٹی مُیسر نہیں اس لیے چھوٹے بچے پڑهائی کو چھوڑ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ گوادر کی ترقی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گوادر کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی زندگی اس حد تک مفلوج ہوچکا ہے کہ وه دن بدن نشہ جیسے برائیوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔
کیا ترقی اسی کا نام ہے ؟ کیا گوادر کی ترقی یہ ہے ؟ کیا گوادر کے لوگوں کے حقوق یہ ہیں؟
گوادر کے ہر پروجیکٹ پر دوسرے شہر اور صوبوں کے لوگ روزگار پر ہیں، حالانکہ پہلا حق تو گوادر کے شہروں کا تھا کیونکہ وه گوادر کے مقامی لوگ ہیں اور اسی زمین کے اصل وارث ہیں۔ اگر اسی زمین کی اصل وارثوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم کیا جا رہا ہے تو گوادر کیسے ترقی کرسکتا ہے کیونکہ ترقی وہاں ہو سکتا ہے جہاں پر وہاں کے اصل وارث اپنے شہر اور ملک کی ترقی کیلئے دن رات جد جہد کریں اور ہر ایک ترقی کے کام میں حصہ لے لیکن گوادر میں مقامی لوگوں کو ترقی کے کاموں سے دور رکھا گیا ہے اور جو بھی پروجیکٹ ہے ان پر دوسرے صوبوں کے لوگ کام کر رہے ہیں اور وه جو باہر کے لوگ ہیں وه یہاں بالکل آرام اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ یہاں کی عوام ذلیل و خوار ہے۔ ہر جگہ ان کو رُوک کر پوچھا جاتا ہے کہ کِدهر جا رہے ہو؟ کِدهر سے آرہے ہو؟یہ ایک شرم کی بات ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو انہیں کے سرزمین پر گھومنے کی اجازت نہیں ہے تو کیسے گوادر ترقی کرسکتا ہے؟ ہر سرزمین کو ترقی دینے والے تو اس کے وارث ہوتے ہیں لیکن جو ترقی گوادر کے عوام کے لیے نہ هو تو وه ترقی کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
اس لیے ایسی ترقی کا اثر کچھ الگ طرح کے ہوتے ہیں ترقی کی سب سے بڑی کامیابی گوادر کے عوام کو ساتھ لے کر چلنے اور ایک ساتھ کام کرنے میں ہے۔اگر واقعی ریاست والے گوادر کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو گوادر کے بنیادی ضرورتوں کو پورا کریں، گوادر کے تعلیم کے نظام کو اچھا بنائیں، ہسپتال میں سارے سہولیات کو پورا کریں، گوادر میں پانی اور بجلی کا مسلہ حل کریں ۔مقامی لوگوں کو انکے حق سے محروم نا کریں تب گوادر ترقی کرسکتا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں