بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں باڈر بندش کے خلاف منگل کے روز عوامی تحریک کی کال پر ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی –
ریلی میں آل پارٹیز کیچ، سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان شریک تھے۔
ریلی کے شرکاء شہر کے مختلف سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے شہید فدا چوک پر پہنچے اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
اس موقع پر آل پارٹیز کیچ کے ڈپٹی کنوینئر فضل کریم، بی این پی کیچ کے صدر میجر جمیل دشتی، بی این پی گوادر کے رہنماء حسین واڈیلہ، بی این پی کے مرکزی رہنماء حمل بلوچ، پی این پی کے مرکزی رہنماء خان محمد جان گچکی، بارڈر ٹریڈ کلانچ کے رہنماء امان جمعہ، جماعت اسلامی کیچ کے امیر غلام یاسین بلوچ، بی ایس او کے وائس چیئرمین بوہیر صالح، نیشنل پارٹی کیچ کے نائب صدر طارق بابل، عوامی نظریاتی تحریک کے رہنماء حاجی ابرہیم جوسکی، نوید نصیر، یعقوب جوسکی، صادق فتح زامرانی، پیک اپ ٹرانسپورٹس ایسوسی ایشن کےصدر، سابق تحصیل ناظم بلیدہ اور سابق میر جے یو آئی (ف) کیچ مولانانصیر احمد، دو ہزار اینڈ زمیاد ایسوسی ایشن کیچ کے صدر وسیم سفر زامرانی اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باڈر ٹریڈ ہماری جدی پشتی کاروبار ہے جو ہزاروں سالوں سے جاری وساری ہے مگر اس کاروبار پر قدغن لگاکر اسے مختلف حربوں سے بندکرنے کی کوشش کی جارہی ہے کبھی ٹوکن سسٹم کے ذریعے اسے بند کر دیا جاتا ہے کبھی ای ٹیگ کے زریعے سے کرنے کی پالیسی کی جاتی ہے یہ تمام حربے اس لیے استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ ہمیں غربت کی طرف دھکیلا جائے-
انہوں نے کہا کہ باڈروں کے رہائشی مختلف مسائل کاشکار ہیں انہیں مختلف حربوں سے تنگ کیا جارہا ہے، دنیا میں باڈر کے قرب وجوار میں رہائش پزیر آبادیوں کو طرح طرح کی سہولتیں میسر ہیں مگر بدقستمی سے یہاں سب سے ذلیل ہیں-
مقررین نے کہا کہ بارڈر کو پہلے کی طرح کھولا جائے اور ہر خاص وعام کو کاروبار کی اجازت دی جائے بصورت دیگر احتجاج کا سلسلہ مزید جاری رہے گا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بارڈر پر ٹوکن اور ایٹیگ سسٹم کا مکمل حاتمہ کیا جائے جس ای ٹیگز اور ٹوکنوں کی وجہ سے بھائی بھائی آپس میں دست گریباں متنفر اور خانہ جنگی جیسے رجحانات پیدا ہورہے ہیں –
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ساحل اور بارڈر بلوچستان کے عوام کی جدی پشتی میراث ہیں انہیں آزادانہ طور پر اپنے روزگار کرنے کا مکمل حق دیا جائے جبکہ بارڈر کو ماضی کی طرح مکمل کھول کر ہر خاص عام کو روزگار کا موقع فراہم کیا جائے اور بارڈر پر جتنے کاروباری کراسنگ پوائنٹ تھے انہیں دوبارہ کھول دیا جائے-
مظاہرین نے کہا کہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان میں لوگوں کی آپس میں رشتے داریاں ہیں لہذا انہیں شادی بیاہ تقریبات تعزیت کیلئے ہر وقت آنے جانے میں کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیئے اور ایران سے خوردونوش اشیاء و دیگر قانونی ساز سامان لانے اور لیجانے کی اجازت دی جائے –
انہوں نے اپنے مطالبات میں بارڈر کے راستے پر لگے چیک پوسٹوں پر عام عوام اور بارڈر پر کام کرنے ڈرائیورز حضرات کے ساتھ ناروا سلوک اور تذلیل ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا –