رواں سال کے 10 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب میں پاکستانی سیکورٹی فورسز ایف سی کے گولہ باری سے جانبحق بچوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد منگل کے روز کوئٹہ کے دامن میں واقع شہدائے بلوچستان قبرستان نیو کاہان میں سپرد خاک کر دیا گیا –
نماز جنازہ میں خواتین سمیت دیگر افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی، اور اس موقع پر بلوچی انقلابی ترانہ پڑھ کر میتوں کو سلامی دی گئی –
لوگوں نے بلوچستان میں فوجی آپریشن، بچوں، خواتین کے قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی –
خیال رہے کہ سانحہ ہوشاب واقعہ میں جاں بحق بچوں کی لواحقین گذشتہ نو دنوں سے سراپا احتجاج تھے اور انہوں نے چند مطالبات پیش کیے تھے تاہم ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور سیکورٹی فورسز نے 8 دنوں تک اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ بچوں کی موت گولہ فائر ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے –
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے لواحقین کے دھرنے میں پیش کیے گئے مطالبات کے حق میں کوئٹہ شہر میں دو دنوں تک شہر کے اندرونی سڑکوں پر احتجاج کے باعث ٹریفک معطل رہی اور صوبے کی دیگر شہروں میں احتجاج کیے گئے جبکہ لواحقین نے میتیں لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کا عندیہ دیا تھا –
پیر کے روز بلوچستان ہائی کورٹ چیف جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل ایک بینچ نے ہوشاب واقعہ میں جاں بحق بچوں کو سرکاری شہید قرار دے کر غفلت برتنے پر ڈی سی کیچ حسین جان، اسٹنٹ کمشنر عقیل اور لیویز تحصیلدار تربت کو معطل کرکے ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کو ہدایت جاری کی کہ بچوں کے لواحقین کو مکمل سیکورٹی کے ساتھ علاقے روانہ کر دیا جائے –
جبکہ واقعہ میں زخمی ہونے والے تیسرے بچے کو سرکاری خرچ پر علاج کے احکامات اور ایف آئی آر کو از سر نو ایف سی پر درج کرنے کی احکامات جاری کئے گئے۔ عدالتی احکامات کے بعد لواحقین نے گذشتہ شب اپنے دھرنے کو اختتام پذیر کیا –