حیات بلوچ کے والد مرزا ولد مراد اور بڑے بھائی مراد مرزا نے گذشتہ روز چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے حیات بلوچ کے قتل کیس میں راضی نامہ کی بات کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کوئی راضی نامہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کریں گے-
مراد مرزا کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ فیملی نے راضی نامہ جمع کرایا ہے، حیات بلوچ کے قتل میں ملوث اہلکار سے راضی نامہ نہیں ہوسکتا ہے اسے سزا دی جائے –
گذشتہ روز چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت میں ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ میرا نظام کام کررہا ہے، عدلیہ پر انگلی اٹھانے والے حیات بلوچ کا کیس دیکھ لیں، ہم نے مجرم کو سزا دی لیکن انکے ورثاء نے راضی نامہ کرکے کیس واپس لیا –
چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد حیات بلوچ کی لواحقین نے تمام باتوں کو مسترد کردیا –
تاہم آج بروز بدھ رجسٹرار ہائی کورٹ آف بلوچستان کوئٹہ نے اپنے جاری کردہ تردیدی بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عدالت عالیہ بلوچستان نے 12-10-2021 کو اپنی تقریر کے دوران جس کیس کے راضی نامہ کا ذکر فرمایا وہ حیات بلوچ کا نہیں بلکہ گوادر کے کسی اور کیس میں راضی نامہ کے حوالے سے تھا۔
یاد رہے کہ حیات بلوچ کو گزشتہ سال 15 اگست کو آپسر تربت میں پاکستانی سیکورٹی فورسز ایف سی کے اہلکار شاہد اللہ نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا-
انسداد دہشت گردی عدالت کیچ کے جج نے رواں سال 20 جنوری کو گرفتار ملزم کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی-
سزا کے خلاف ملزم نے ہائی کورٹ تربت بنچ میں اپیل کی تھی –
لواحقین حیات بلوچ نے کہا کہ مجرم ابھی تک مچھ جیل میں قید ہے اور کیس زیرسماعت ہے ہم نے کسی قسم کی راضی نامہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہم راضی نامہ کریں گے۔