چیئرمین آفتاب کی یاد میں ۔ شئے مزار بلوچ

518

چیئرمین آفتاب کی یاد میں

تحریر:شئے مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قلم میں اتنی سکت نہیں کہ میں چیئرمین وشین کے متعلق کچھ لکھ سکوں، میں وشین کیوں کہہ رہا ہوں حالانکہ میں تو کسی وشین کو جانتا ہی نہیں، میں تو جسے جانتا ہوں وہ آفتاب ہے، وہ زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچوں کے لیے ابھرتا ہوا آفتاب ہے، یہ وہ آفتاب ہے جس نے نہ صرف اپنی زند بلوچ کے لیے وقف کی بلکہ نوجوانوں کو ایک نئی نوید دکھائی۔

میری اتنی اوقات نہیں کہ وشین کی تعریف میں کچھ الفاظ یا جملے نقش کر سکوں ہاں مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے ٹوٹے ہوئے الفاظ سے وشین کی خدمت میں کچھ نا کچھ حقیقت کے روبرو لکھ سکوں۔ چیئرمین وشین کی خدمت میں لکھی ہوئی ہر ایک تحریر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں چیئرمین کی اچھائیاں، ان کا اخلاق، انکے عادات، انکا لوگوں سے ملنے جلنے کا طریقہ سلیقہ یہ سب موضوع بیان ہیں۔ ااس بات میں زرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ چیئرمین آفتاب اعلی ظرف تھے اور ایک اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ یہاں میں چیئرمین کے چند ایک منفرد پہلووں کو اجاگر کرنا چاہوں گا۔

ابتدا میں یہاں سے کرنا چاہوں گا کہ میں چیئرمین وشین کو نہیں جانتا سننے میں آپ کو بڑا عجیب لگا ہوگا کہ میں اتنی بڑی ہستی کے بارے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ “میں اسے نہیں جانتا”، جی ہاں بالکل یہ عجیب بات ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت بھی ہے۔ چونکہ چیئرمین سے میری زیادہ ہم آہنگی نہیں ہوئی اسی لیے میرے تعلقات چیئرمین کے ساتھ محدود تھیں۔ ہاں مگر ان کے اعمال کا مجھے بخوبی علم ہے، ان کے زمانہ طالب علمی کے ہر عمل کے باریکی سے جانتا ہوں۔

یہ انسان کی فطرت و قدرت ہے جس بھی چیز دل لگی ہوجائے تو پھر اس چیز کے لیے انسان درد رکھتا ہے اور ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہی رہتا ہے۔ ویسے ہی چیئرمین کی دل لگی بلوچ و بلوچستان تھی اور بلوچ و بلوچستان کا درد چیئرمین وشین میں سما گیا تھا، ظاہر ہے بلوچ کا درد تھا جو اتنا بڑا قدم اٹھایا اگر درد نہ ہوتا تو اتنا بڑا قدم اٹھاتے؟ قطعاً نہیں۔

وشین کی ایک بات مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے اور وہ بہت ہی خوبصورت بات تھی کہ میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ میں ایک بلوچ ہوں۔۔ بلوچ و بلوچستان پوری طرح مجھ سے جڑی ہوئی ہے۔ بلوچ و بلوچستان کی خوشی ہو یا غم، راحت ہو یا سکون، ہنسنا ہو یا رونا، روڈوں پر بیٹھنے سے لیکر فریاد کرنے تک یہ سب چیزیں مجھ سے جڑی ہوئیں ہیں۔

چونکہ بلوچستان اپنی سرزمین ہے اس لیے اسکا ہونا ہمارے لیے باعث خوشی اور باعث فخر ہونا چابیے لیکن یہاں اسکے برعکس ہو رہا ہے۔ یہاں ہر شخص کو در در کی ٹھوکر کا سامنا ہے۔ چیئرمین آفتاب کو اس چیز کا روز اول سے علم تھا کہ یہ نا پاک ریاست کسی بھی صورت میں بلوچوں کو برداشت نہیں کر سکتی، کبھی بھی ریاست کو یہ گوار نہیں گزرے گا کہ بلوچ ایک خوش و خرم زندگی گزارے۔

آخر میں اختتام یوں کرنا چاہوں گا کہ چیئرمین آفتاب ہمیشہ سے کوشاں تھے اور ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ ہر بلوچ نوجوان یہ جانے پہچانے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ کون کر رہا ہے؟ اور ہمیں ان صورت حال پہ کیا کرنا چاہیے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں