بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئےسیاسی رہنماؤں کی جبری گمشدگی ریاستی ظلم و جبر کی عکاسی کرتی ہے۔ بلوچ نیشنل موؤمنٹ
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو پانچ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے پر اپنے بیان میں کہا کہ شبیر بلوچ طالب علم رہنما تھے جنہیں بلوچ قومی تحریک آزادی میں شعوری جدوجہد کی پاداش میں ریاستی اداروں نے ان کی اہلیہ کے سامنے جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا۔ پانچ سال کے طویل عرصے میں شبیر بلوچ کی زندگی کے بارے میں ان کے خاندان کو کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ وہ کس حالت میں ہے۔ بی ایس او آزاد اور ان کی بہن اور اہلیہ نے شبیر کی بازیابی کے لئے تمام تر پُرامن ذرائع استعمال کئے لیکن صرف دلاسہ دیکر ان کے خاندان کو تسلی دی گئی۔ عملی طور پر ان کی بازیابی کے لئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جو ایک تشویشناک امر ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کے عقوبت خانوں میں شبیر بلوچ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہے کیونکہ شبیر سے قبل سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے جنہیں اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاش کی شکل میں پھینک دیا گیا۔
قابض ریاست بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سیاسی رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے جرم کا مرتکب رہا ہے۔ یہ ریاستی ظلم و ستم کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ریاست اپنے اساطیری تصویر کے ذریعے بلوچ قوم میں نو آبادیاتی بیگانگیت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہو کر بلوچ قوم بالخصوص نوجوانوں کو شعوری جدوجہد سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کے خلاف شبیر بلوچ جیسے نوجوانوں کی جدوجہد ریاستی راہ میں رکاوٹ ہے اور اسی ریاستی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے شبیر اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
مرکزی ترجمان نے بیان کے آخر میں شبیر بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے کل کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے کی مناسبت سے بلوچ عوام، سول سوسائٹی، اور دیگر مظلوم اقوام سے شرکت کی اپیل کی۔