بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ کو 4474 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زونل نائب صدر ثناء آجو نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ سامراجی قوتیں اپنی مفادات کی خاطر مظلوم و محکوم قوموں کی استعمال کے حوالے سے نئی صف بندی کے ذریعے منظم ہوتا دیکھائی دے رہے ہیں آئے روز سامراج مخالف پرامن جدوجہد کو کچلنے کے لے نئی حربے آزما کر دنیا میں جاری پر امن جد وجہد کو ملیا میٹ کرنے کی بہت سے بے جاطاقت کا استعمال اور مختلف تحریکوں کے سامنے ردانقلابی گروہوں کو مذہبی قبائلی لسانی فسادات کو ہوا دیکر ناکام کوشش کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں بلوچستان کے صورت حال بھی اسی طرح کا منظر پیش کر رہے ہیں جہاں ایک طرف قابض ریاست کی جانب سے بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کے لے بے دریغ طاقت کے استعمال کے ذریعے ریاستی خور بلوچ نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچوں پر طاقت کا استمعال، حکمرانوں کے تیل چھڑکنے کا عمل نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے عدم استحکام میں اضافہ کرے۔ بلوچوں کا کہنا ہے کہ حکمران بزور طاقت بلوچ شناخت کو مٹانے کے درپے ہیں یہاں موت کا خوف ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بلوچ حقوق کی آواز بلند کرنے کے جس راستے پر گامزن ہیں وہ حکمران قوتوں اور بلوچ قوم کے درمیان بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آخر ایسا کونسا جرم ہے جو قابل گردن زنی ٹھہرا بلوچوں کے مطابق دراصل بالادست قوتیں حق و سچ سے خوفزدہ ہیں یہی خوف سے بلوچوں کو اغواء کے بعد شہادت اور تشدد زدہ لاشوں کو ویرانے میں پھینکنے کا سبب بنا یہ جرم اب بلوچ سماج میں عام ہوچکا ہے جو ویرائے میں ملنے ہر لاپتہ بلوچ کی لاش بعد شدت اور وسعت اختیار کرتے جارہے یے جس کے باعث مبصرین اس امر کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر قتل اور لاشیں پھینکنے کا سلسلہ نہ تھما تو بلوچ سماج میں طوفان جنم لے سکتی ہیں۔