نوآبادیاتی نفسیات اور ہمارے رویے – فرید مینگل

381

نوآبادیاتی نفسیات اور ہمارے رویے

تحریر: فرید مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی جبری حاکم جب کسی قوم و وطن پر مسلط ہوتا ہے تو وہ ناجائز مسلط طاقت نہ صرف اس وطن کے زخاٸر و ساحل و وسائل کو ہتھیا لیتا ہے۔ بلکہ وہ تو اس دھرتی پر بسنے والی قوم کی شناخت تک مٹانے کے درپے ہوتا ہے اور اس مقصد کےلیے وہ زبان، ثقافت، قومی میراث، تاریخ حتیٰ کہ اس کی اپنی نفسیات کو بھی لہولہان کرکے اس محکوم قوم کو مکمل طورپر نیست و نابود کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ اب وہ اس قوم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے اس قومی شناخت، میراث، نفسیات و وطن کو بچائے رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور اپنے انقلابی نظریات پر قائم رہتے ہوئے اپنے قوم و وطن کا دفاع کرتا ہے۔

بلوچ وطن اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہے۔ وطن پر مسلط حاکم سب کچھ تہس نہس کرنے کے درپے ہے اور بلوچ سب کچھ بچائے رکھنے کی کاوش میں ہے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ اس حاکم سے مزاحمت کرتے کرتے ہماری اپنی نفسیات کس حد تک گھائل ہوچکی ہے اور ہم حاکم کی نفسیات سے کس حد تک شعوری یا لاشعوری طور پر متاثر ہوچکے ہیں۔

بلوچ نفسیات پر ایک مضبوط وار سامراج نے 80 کی دہائ میں اس وقت کیا جب سامراج نے ثور انقلاب سے لڑنے کےلیے جہاد ڈالر کے ذریعے باقاعدہ طورپر اپنی تمام تر تواناٸی لگادی۔ مجاھدین کے ساتھ مل کر اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے سوشلزم کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ باقاعدہ راولپنڈی سے اس مقصد کےلیے پمفلٹ و رسالے بھی شاٸع کیے گئے اور اس دوران ہم بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر مارکسزم کو قومی سوال کے متضاد سمجھنے لگے. آج حالت یہ ہے کہ مارکسزم کا سن کر بلوچ کا ایک طبقہ ایسے الٹیاں کرنے لگتا ہے جیسے کسی ھندو پنڈت کے سامنے گاٶ ماتا کے گوشت کا ذکر ہوا ہو۔ کیونکہ ہمارا حاکم امریکی سامراج کے حکم پر سوشلزم کو گناہ کبیرہ قرار دے چکا ہے تو اس کے اثرات اپنے انداز میں ہم پر بھی لازماً پڑتی رہیں۔

اسی طرح غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والی نفسیات بھی دھرتی پر مسلط حاکم کی ہے، جب بھی اس ملک کے آٸین و قانون پر مَن و عَن ایمان رکھنے والا اس کا کوٸی سیاستدان یا پھر صحافی و دانشور بھی ملکی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے سے اختلاف رکھے تو غدار و ملک دشمن تصور کیا جاتا ہے اسی طرح آج بلوچ انٹلیجنشیا میں کوٸی اگر ان کی مرضی و منشا اور طرز عمل سے فقط زرا سا اختلاف بھی کرے تو وہ بھی براہِ راست وطن و قوم کا دشمن و ریاستی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام سے جو سوشل میڈیاٸی گدھے تعینات کردیے ہیں ان کا کام فقط ٹرینڈ بنانا ہے چاہے وہاں جھوٹ اور گالم گلوچ پر مبنی کوٸی معلومات کا حکم نامہ کیوں نہ ملے۔ یہ لوگ روزانہ اپنے کسی نہ کسی بندے کی عزت سوشل میڈیا میں اچھال رہے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے ان کو مواد و بیانیہ بھی اسکرپٹڈ ملتا ہے۔ اسی طرح بلوچ نفسیات بھی حاکم کے نفسیات میں کسی حد تک رنگ کر چکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر عزتیں اچھالنا اور بلا تحقیق خبریں فارورڈ کرنا رواج پا چکا ہے۔ اور اس غداری کے سرٹیفیکٹ پر ٹیگ بار بار بدلتی اور دھرائی جاتی ہے۔

بی ایس او کے شہید انقلابی ساتھی سنگت ھانی کی شہادت کے معمے پر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوگئی اور ہمارے سوشل میڈیائی مجاھدین اس معاملے میں کان میں خبر پڑتے ہی شروع ہوگئے۔ اور جب تنظیم نے حقیقت کی بنیاد پر اپنا اصولی مٶقف پیش کیا تو ان کی یہ بات بھی ان سیاسی گدھوں کی انا پر لگی اور انہوں نے بانک شہید کی انقلابی جہد کو یکسر بھول کر ایک بار پھر سے تنظیم کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کا آغاز کیا اور ھر طرف سے غدار غدار کی صداٸیں بلند ہوٸیں جو کہ مسلط حاکم کے پیڈ ٹرولرز اور یوتھیوں کی نفسیات و رویہ رہی ہے۔

ان نوآبادیاتی نفسیات سے متاثرہ سوشل میڈیائی ٹرولرز میں سے کسی نے بھی ٹھنڈے دماغ سے یہ سوچنا تک گَوارا نہیں کیا کہ بی ایس او سے اگر شہید بانک ھانی بلوچ جیسی کوٸی انقلابی ساتھی نکل سکتی ہے تو وہ تنظیم کم از کم قوم دشمن نہیں ہو سکتی۔ شہید ہانی بلوچ نے فیملی پریشر اور اجازت نہ ملنے کے باوجود اس تنظیم کا چناٶ کیا اور آخر دم تک اس تنظیم سے جُڑی رہی اور اگر شہید بانک کی تنظیم غدار ہوتی تو کم از کم اس تنظیم سے شہید ھانی بلوچ کی بجاٸے موقع پرست و مفاد پرست سیاسی گِدھ ہی نکل آتے جنہیں ہر معاملے پر اپنا اُلو سیدھا کرنا ھوتا ہے اور ان وحشی گِدھوں کو ہر بار ایک لاش چاہیے ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی غیر سنجیدہ و نوآبادیاتی نفسیات سے متاثرہ ٹیڑھی ناک سے مسلسل سیاسی سانس لیتے رہیں۔ شہید بانک ھانی بلوچ کی تنظیم کے مخالفین کو یہ بات ہضم ہو ہی نہیں سکتی کل تک ہم ھانی بلوچ کی تنظیم کو ڈیتھ اسکواڈ، ریاستی دلال نہ جانے کیا کیا کیا کہتے رہے اور ھانی بلوچ سمیت اس کے ساتھیوں اور اس کی تنظیم کو مسلسل ریاستی ایجنٹ کہتے رہے اور اسی تنظیم سے ایک انقلابی جہد کار نکل آٸی اور یہ ثابت کر گٸی کہ ایک قومی فکری اور انقلابی سیاسی تنظیم سے کیسے جہد کار پیدا ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کس طرح ہوتی ہے۔

محکوم وطن کا باشندہ ہمیشہ حاکم کی جبر کا شکار رہتا ہے اور سنگت ھانی بلوچ بھی ایک محکوم قوم کی انقلابی شہزادی تھی اور وہ بھی باقی بلوچوں کی طرح اس جبر کا شکار تھی۔ کچھ احمق لوگ ھانی بلوچ کے معاملے پر ریاستی نماٸندہ جام کمال کی کسی سوشل میڈیاٸی ٹویٹ پر بھی اپنا بے مغز سر کھجا کر یہ دلیل پیش کیا کہ جام کمال نے یہ ویڈیو ٹویٹ کی ہے تو یقیناً جام کمال ان کا حامی ہے۔ یہ احمق دلیل کے اس نچلے سطح پر گرگئے، گرنا تو تھا ہی جب نظریاتی پختگی، فکر و انقلابی وِرثہ اور سیاسی اصول نہ ہوں تو یہی حال ہوگا۔ وہ یکسر یہ بھول گٸے کہ جام کمال ایک مہرہ ہے وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی حد تک جا سکتا ہے۔ وہ کبھی بھی پینترا بدل کر اپنا الو سیدھا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ مریم نواز نے کوٸٹہ کے ایک جلسے میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے درد و غم کا ذکر کیا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اپنی تصاویر ٹویٹ کیں۔ کیا اب ہم یہی کہیں گے کہ چونکہ مریم نواز لاپتہ افراد کی ہمایت میں آٸی ہے جس کے غاصب والد میاں نوازشریف کے دورِ حکومت میں سب سے زیادہ بلوچ ورنا لاپتہ کیے گٸے تھے تو اس لیے لاپتہ افراد کے لیے مریم نواز کا آواز اٹھانا لاپتہ افراد کے مقدمے اور ان کی سچاٸی کو گھٹا دیتا ہے۔۔۔۔؟ ہرگز نہیں

ھانی فقط ایک انقلابی ممبر نہیں تھی وہ باقاعدہ ایک پیغمبر تھی پیغمبر مزاحمت تھی، ایک ایسی پیغمبر جو مسلسل جبر و بربریت، سماجی قید و بندشیں، پدرشاہی و سامراجی نفسیات سے مسلسل بغاوت کرنے والی پیغمبر تھی۔ ھانی نے ہم سب کو مزاحمتی زندگی جینے کا فلسفہ سمجھایا اور اس پر خود عمل پیرا ہوکر عملی نمونہ پیش کیا۔ اور بلوچستان میں جہاں حاکم نے درست سیاست کےلیے میدان ہی تنگ کیا ہو اور بلوچ سماج کی پدرشاہانہ نظام میں عورت فقط ایک جِنس ایک شے یا پھر ملکیت قرار دے کر زنجیروں میں جکڑی جاٸے تو وہاں ھانی جیسی مزاحمتی پیغمبر کا ابھر آنا اور اس جبر پر مبنی پوری نظام سے بغاوت کرنا یقیناً اس کے انقلابی پنے کی واضح اور روشن ثبوت ہے۔ بلوچ سماج میں بڑی خاموشی اور دیدہ دلیری سے عورت کی آواز دباٸی جا سکتی ہو حتٰی کہ بڑے بڑے سیاسی رہبر خواتین کو خاموش کرایا جا سکتا ہو اسی سماج میں ھانی نے آخری دم تک مزاحمت کی اور انصاف آزادی اور برابری کا عَلَم بلند کیے رکھا۔لیکن اپنے انقلابی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ھانی نے ہمیں یہ سمجھایا کہ مزاحمت فقط چار گھنٹے کی رش کش، ماتمی تقریر اور فوٹوگرافی کرتے رہنے کا نام نہیں بلکہ درد کو جاننے، سمجھنے،شعوری طورپر پالتے رہنے اور اس درد کو اظہار دے کر مسلسل جبر کے خلاف لڑنے کا نام ہے۔ اور ھانی آخر دم تک وہی کرتی رہی کیونکہ وہ سامراجی نفسیات سے متاثرہ سیاسی ورکر نہیں تھی۔

مسلط حاکم کی نفسیات نے ہم پر اتنا غلبہ پایا ہے کہ ہم اجتماعیت کو مکمل ٹھکرا چکے ہیں فقط قوم قوم کا رٹہ لگائے جا رہے ہیں کہنا یوں چاہیے کہ قوم کے نام پر ہم اپنے گروہی، و تنظیمی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ہوبہو اپنے حاکم کی طرح جو مسلسل اسلام و جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن اس سے کوسوں دور ہے۔ ہم نے انہی حاکمانہ نفسیات کی وجہ سے ایک دوسرے کو براہ راست دشمن ٹھہرا دیا ہے۔سیاسی بغض، انا، حسد و نفرت کا اس حد تک شکار ہوچکے ہیں کہ ہم تو اپنی لاشوں کا بھی بٹوارا کر چکے ہیں۔ بانک کریمہ کی شہادت پر بھی ایک ایسا ہی رویہ حب میں ہمارے ساتھیوں کو جھیلنا پڑا اور شہید رامز کی شہادت پر تو ہم نے مکمل ثبوت دیا اور شرمندگی تک محسوس نہیں کی کہ ہم فقط اپنے مخالف کو زیر کرنے کی ناکام کوشش نہیں کر رہے بلکہ ہم تو ان روایات، قومی اقدار اور اس اجتماعی جہد کو بھی اپنے گندے رویوں اور نفسیات کی بھینٹ چڑہا رہے ہیں۔

رامز نے جو سہنا تھا سہہ لیا، پانچ گولیاں اور ھینڈ گرنیڈ کے چَھرے تک اپنی ننھی سی جسم ہر سہا مگر اس نے ہمیں سوچنے اور اس جبر و بربریت پر یک مشت ہم آواز اور ہم قدم ہوکر نکلنے کا موقع دیا، اس نے اس خاطر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کیا مگر حاکم کی نفسیات نے ہمیں قومی و شعوری اور نظریاتی طورپر اتنا بے حس و مفادپرست بنایا ہے کہ ہم اب قومی و اجتماعی سوچ فکر رکھنے اور جہد و مزاحمت کرنے کی ہمت و جُست تک نہیں رہی۔ رامز نے ہماری اجتماعی منافقت کا پردہ چاک کرکے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور اپنے ان رویوں پر شرمندہ ہو کر ایک بار پھر ایک دوسرے کا ھاتھ تھامیں نہیں تو ہم دنیا بھر میں رسواٸیاں مسلسل سمیٹتے رہیں گے۔ اور یہ رسواٸی فقط تنظیمی یا شخصی رسوائی نہیں ہوگی بلکہ یہ قومی رسوائی تک جا سکتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں