میں لڑونگا اور ضرور لڑونگا
تحریر: ریاست خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
رات کے کوئی تین بج چکے ہیں، لاکھوں کی آبادی والے اس شہر میں چارسو خاموشی، سناٹے اور اندھیر نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، سڑک پر لگے اسٹریٹ لائٹس بھی بجھے ہوئے ہیں، آس پاس کے گھروں کی بتیاں گو کہ روشن ہیں لیکن ان کی روشنیوں کا اثر شہر کے مین چوک تک آتے آتے معدوم پڑ جاتاہے، پورا شہر یکسر خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے، مین چوک سے بہت دور آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اس خاموشی میں تھوڈی بہت جنبش ضرور پیدا کردیتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ ان کا بھونکنا بند کر دیتی ہیں خاموشی پھر سے غالب آجاتی ہے اور پورا شہر خاموشی میں ڈوب جاتاہے۔
اس خاموش و اندھیری رات میں شہر کے بیچ چوراہے پر موجود ایک روشن بتی نے عین اس جگہ پر اندھیرے کو تھوڑا بہت پیچھے دکھیل دیا ہے۔
اس بتی کے نیچے سخت سردی میں دو عمر رسیدہ بھوڑے میر مہراب اور میر سردو خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، دونوں اپنے پہناوے اور حلیے سے یہاں کی مقامی آبادی سے مختلف معلوم ہوتے ہیں، دونوں نے سروں پے بلوچی دزمال کی پگڑیاں بندھی ہوئی ہیں، جو انتائی گرد آلود معلوم ہوتی ہیں جیسے کہ دونوں کسی کچے راستے سے کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے یہاں آئے ہوں۔ مقامی آبادی کے برعکس ان دونوں نے پاوں میں دکانوں سے ملنے والے جوتوں کے بجائے ہاتھوں سے تیار کئے گئے جوتے پہنے ہوئے ہیں، ان دو عمر رسیدہ افراد کے بلکل سامنے دو تابوت رکھے ہوئے ہیں جن میں دو سرد لاشیں پڑی ہوئی ہیں، لاشوں کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے ان پر کیمیکل بھی چھڑکا گیا ہے۔
دونوں لاشوں کے دائیں طرف بیٹھا شخص میر مہراب قبائلی معاشرے میں پلے بڑھے اور بوڑھے ہوئے ہیں، قبائلی سماج نے ان پر کئی ضابطے نافذ کئے ہیں جن میں سے ایک اپنے دکھ و تکالیف کو دوسروں پر ظاہر کرنا یا کسی حادثے کے پیش نظر رونا دھونا کمزوری کو ظاہر کرتا ہے جس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، میر مہراب کے ساتھ وقت گزارنے والے بخوبی جانتے ہونگے کہ وہ کس قدر بہادر مہمان نواز اور قبائلی اصولوں پر کاربند انسان ہیں، ان کی زندگی میں کئی حادثے گزرے ہیں پر مجال ہو کہ کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو کا ایک خطرہ بھی بہا ہو۔
لیکن اب وہ جوان نہیں رہے اور ضعیف العمری میں پے در پے حادثوں کے بعد دو دن قبل پیش آنے والے واقعہ نے ان کی کمر ہی توڑ ڈالی، وہ جب دوڑتے پاؤں اسپتال کے مردہ خانے میں داخل ہوئے اور اپنے سامنے اپنے پھول جیسے نواسوں کے جسموں کو اسٹرچر پے پڑا سرد پایا تو چاہ کر بھی خود پر قابو نہ پا سکے اور زار زار رونے لگے۔
میر مہراب اس چوک سے سینکڑوں کیلومیٹر دور کیلکور نامی پہاڑی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کسی قبائلی سردار کے ہاں پیدا نہیں ہوئے لیکن اپنے علاقے میں انہیں پھر بھی میر کے لقب سے پکارا جاتا ہے وہ اس لیے کہ وہ اپنے علاقے میں باقیوں سے شاید کچھ زیادہ معاملہ فہم اور قوت برداشت رکھنے والے شخص ہیں،اسی لئے لوگ انہیں اپنے آپسی مسائل و جھگڑے حل کرنے کیلئے مدعو کرتے ہیں، وہ باقیوں سے شاید اس لئے بھی مختلف ہیں کہ وہ تھوڑی بہت اردو سمجھ پاتے ہیں اور ریڈیو پر روزانہ خبریں سنتے ہیں اور دیگر جو اردو نہیں سمجھ پاتے انہیں دنیا میں ہو رہی تبدیلوں کے متعلق آگاہ رکھتے ہیں۔
وہ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور یہی ان کا کل وقتی کام اور پیشہ رہتا ہے جو انہیں اپنے باپ دادئوں سے وراثت میں ملی ہے۔
اس کے علاوہ ان کو خاندانی وراثت میں ملنے والی کچھ زمیں پر وہ کاشت کاری بھی کرتے ہیں جس میں فصل کا دار و مدار بارشوں کے پانی پر ہوتا ہے اس لئے اپنی پوری زندگی میں ان کی خوشی و فکر مندی بارشوں کے برسنے اور نہ برسنے سے منسلک رہی ہے۔
اگر بارشیں برستی ہیں تو چراگاہیں سبز ہوتی ہیں جہاں وہ اپنے ریوڑ چراتے ہیں اور کھیتوں میں فصلیں کاشت کی جاتی ہیں اور اگر بارشیں نہ ہوں تو دعائیں مانگیں جاتی ہیں اور خیرات کیا جاتا ہے تاکہ ان کا رب ان سے راضی ہو اور قحط کا خاتمہ ہو۔
لیکن پچھلے چند سالوں سے ان کی زندگیاں یکسر بدل گئی ہیں، ان کے گاوں بستیوں میں انجان لوگوں کی آمد ہوئی جو اپنی زبان، پہناوے، شکل و صورت اور مزاج کے لحاظ سے میر مہراب اور ان کے علاقے کے دیگر افراد سے یکسر مختلف تھے۔
انہوں نے آتے ہی پہلا وار میر مہراب پر کیا، وہ دن صبح دس بجے تک کسی عام سے دن جیسا تھا لیکن دس بجے کے بعد اچانک کیلکور کی خاموش فضاؤں میں ایک عجیب سی ترتراہٹ شروع ہوئی، آسمان پے چاروں اطراف گولیاں برساتے ہوئے گن شپ ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے، جو بھاگ نکلے وہ بچ گئے اور جو پیچھے رہ گئے وہ ان وحشیوں کی درندگی کا شکار ہوئے، کیا بچہ کیا بوڑھا کیا عورت کیا مرد انہوں نے جس جس کو دیکھا اسے گولیوں سے بھوند ڈالا، جب تک وہ واپس گئے تب تک پوری بستی زخمیوں کی آہ و بکا کی آوازوں سے کراہ اٹھا، چاروں اطراف لاشیں تھیں، میر مہراب کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب وہ خیر جان کے گھر گیا تو وہ پاگلوں کی طرح دھاڈیں مار کر رو رہا تھا کیونکہ گولیاں لگنے سے اس کے معصوم بچے کی آنتیں تک باہر نکل آئیں تھیں، پورے ایک ہفتے تک بستی میں خون اور بارود کی بدبو چھائی رہی۔
میر مہراب کو وہ دن بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک ایسے ہی واقعہ میں وہ حال پرسی کیلئے جب شیزدان نامی بستی کو گیا تو دیکھا کہ شمس خاتون نامی بچی جسے وہ بیٹی کہہ کر مخاطب کرتا تھا وہ زخمی حالت میں اپنے آخری سانسیں لے رہی تھیں اور اس کے چہرے پر گولیاں لگنے سے اس کا پورا چہرا سرخ ہوگیا تھا۔
یہی سلسلہ اگلے کئی سالوں سے چلتا رہا ہے، اس بیچ میر مہراب کا آدھا خاندان ان بھیڑیوں نے نگل لیا، لیکن میر مہراب اور ان کے لوگوں کے حوصلے کبھی بھی کمزور نہ ہوئے، وہ جانتے تھے کہ ان حربوں کا مقصد ان کو اپنی بستیوں سے بے دخل کرنا ہے لیکن وہ اپنی بستی اپنے پہاڑوں اور ان میں بہتی ندیوں کے دلدیدہ تھے جہاں سے انہیں نے باعزت زندگی گزارنے کے گر سیکھے تھے، جہاں ان کا بچپن بیتا تھا اور جہاں ان کی جوانیاں گزری تھیں، وہ کسی طور سے بھی اپنی زمین چھوڑنے پر راضی نہ تھے ان کیلئے یہ محض زمیں کا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ ان کے وجود کا حصہ تھا جہاں ان کے باپ دادا مدفن تھے، جہاں بیتے دنوں کی خواشگوار یادیں وابستہ تھیں۔
لیکن چند مہینے پہلے وہاں برپا ہونے والے قیامت خیز واقعات نے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کے ڈھائے مظالم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
میر مہراب کی بستی، ان کی ندیوں اور پہاڑوں پے سات دنوں تک بارود پھونکا گیا، عورتوں کی آبرو پے ہاتھ ڈالے گئے، تیار فصلیں اور گدانوں کو جلا کر خاک میں ملایا گیا، نہتے رکو اور معصوم بولا جنہیں میر مہراب اپنے بیٹے جیسا مانتا تھا ان کو گولیوں سے بوند ڈالا گیا اور ان کی لاشوں کو فوجی ٹرکوں کے پھیچے باندھ کر پتھروں پر گسھیٹا گیا، اور ان کے مردہ جسموں سے رستے لہو پر قہقہے لگائے گئے۔
پورے علاقے کو خون میں نہلانے کے بعد انہوں نے علاقہ خالی کرنے کا احکام بھی جاری کیا، میر مہراب اور ان کے علاقے کے سیکنڑوں افراد کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی ندیوں، ان کے پہاڑوں اور ان کی بستیوں سے انہیں بدخل ہونا پڑا۔
میر مہراب اور ان کا خاندان پچھلے کئی مہینوں سے بے یار و مددگار مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور رہا ہے، لیکن انہوں نے کبھی بھی کسی کے آگے اپنے ہاتھ نہیں پھیلائے مگر ہوشاب واقعہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا جس نے میر مہراب کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا اور برسوں سے سخت قبائلی بندشوں کا شکار ان کے آنسوؤں کو آزاد کردیا۔
اب ان کے آنسو ہیں کہ روکے نہیں رکتے۔ رات کے اس پہر سخت سردی میں وہ شہر کے بیچ چوراہے پر سامنے پڑے دونوں تابوتوں پر اپنی نظریں جمائے شہر کی خاموشی و بے حسی کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔
ان کیلئے یہ زندگی کی طویل ترین رات ہے جو کاٹے نہیں کٹتی۔
وہ جب تابوتوں میں سرد پڑے اپنے معصوم نواسوں کے متعلق سوچتے ہیں کہ وہ کیا اندوہناک لمحہ ہوگا جب بارود ان کے نازک جسم میں پیوست ہوا ہوگا، وہ کتنا چلائے ہونگے، انہیں کتنا درد ہوا ہوگا، انہوں نے مجھے پکارا ہوگا، اپنی ماں کا نام لے کر اسے صدائیں دی ہونگی، وہ پانی سے باہر نکالی گئی مچھلیوں کی طرح تڑپے ہونگے اور زار زار روئے ہونگے۔ درد کی شدت سے وہ زمیں پر لپیٹیں مارتے ہونگے۔
وہ اپنی نظریں اوپر اٹھاتے ہیں اور اپنے رب سے دل ہی دل میں شکوہ کرتے ہیں کہ میں اپنی عمر جی چکا، اپنا وجود وہاں چھوڑ آیا ہوں جہاں میرا بچپن بیتا ہے جہاں میں اپنے بکریوں کا ریوڑ ہانکا کرتا تھا، جہاں کے پہاڑ اور ندیاں مجھے عزیز تھیں اور جہاں اب مجھے جانے کی بھی اجازت نہیں اے میرے رب تو نے ان معصوموں کی جگہ مجھے کیوں اپنے پاس نہ بلایا۔ وہ اپنی نظریں نیچے کرتے ہیں اور واپس تابوت کی طرف دیکھتے ہیں تو شکوے کی جگہ ان کا دل غصے اور نفرت سے بھر جاتا ہے کہ یہ کن وہشیوں سے پالا پڑا ہے کہ ان میں اتنی بھی انسانیت نہ تھی کہ وہ ان معصوموں کو شدید درد میں بلبلاتے ہوئے چھوڑ کر اپنےفائر کئے گئے مارٹر کے ٹکڑے سمیٹ کر واپس چلے گئے۔
یہ غصہ اور نفرت شدید سردی کے باوجود ان کے جسم کو حرارت سے بھر دیتی ہے اور وہ بڑبڑائے جاتے ہیں کہ نہیں اس کے بعد نہیں، اب بس میں بہت سہہ چکا، بہت برداشت کرلیا، میں اب خاموش نہیں رہونگا یہ شہر چاہے میرا ساتھ دے یا نہ دے، بلوچ جن کی اجتماعی سزا کا میں پے در پے انفرادی شکار ہوا ہوں وہ میرا ساتھ دیں یا نہ دیں، میر و سرداروں کی غیرت جاگے کہ نہ جاگے، چاہے اکیلے ہی کیوں نہ لڑنا پڑے میں لڑوں گا اور آخری دم تک لڑوں گا۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں