مولانا ہدایت الرحمان کے نام ایک کھلا خط
تحریر: عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مولانا صاحب! آپ کی عمر لگ بھگ 45 سے 50 سال ہوگی۔ آپ کو غالبًا 15 سے 20 سال میں دنیا اور اپنے خطے کے حالات کے بارے میں ایک حد تک علم و شعور آیا ہوگا۔ خاص طور پر وہاں جہاں آپ رہتے ہو جس کو آپ اپنا ملک کہتے ہو، حالات اور نظام کے بارے میں آپ کو بہت شروع سے علم و آگاہی ہوا ہوگا۔ ہر چیز کا ادراک رکھتے ہوگے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اس وقت کہاں تھے! یہ مسئلے تو بیسویں صدی کے وسط سے چلتی آ رہی ہیں۔ اور آپ ابھی ایک سے دو ہفتے سے کہنے کو بلوچستان کے مسائل اور بحران کو حل کرنے کے نام پر ابھرتے دکھائی دے رہے ہو۔ لیکن پہلا سوال میرے ذہن میں یہ گردش کر رہا ہے کہ آپ نے ہوش سنبھالتے ہی یا شعور رکھتے ہی بلوچستان کے مسائل پر بات کیوں نہیں کی؟ کیوں اس وقت اٹھے نہیں؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر آج اٹھے ہو، بڑی بڑی باتیں اور وعدے کرتے نظر آرہے ہو اور لاکھوں بلوچ جمع کرنے کا ارادہ رکھے ہو تو پھر بھی بلوچستان کے اصل مسئلوں و معاملات کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہو؟
جی ہاں، بلوچستان کا مسئلہ صرف گوادر کی پانی کا مسئلہ نہیں ہے۔ گوادر کی ماہیگیروں یا ماہیگیریت کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں کے بےروزگاری کا مسئلہ نہیں ہے۔ غیر ترقیاتی کاموں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یا اجناس کی عدم موجودگی یا فراہمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ، بلوچستان کا مسئلہ نوآبادیاتی مسئلہ ہے، استعماریت کا مسئلہ ہے۔ استعمار کی جانب سے بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی استحصال و لوٹ ماری کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے کا مسئلہ ہے۔ لاپتہ افراد یا جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ہے۔ قبضہ و غصب کا مسئلہ ہے۔ سامراجی عزائم اور منصوبوں کے وجود کا مسئلہ ہے۔ ڈیتھ اسکواڈ یا استعمار کے تخلیق کردہ دوسرے عسکری و مسلح جتھوں کی موجودگی کا مسئلہ ہے جو بلوچستان میں بدامنی کے حقیقی سبب ہیں۔ سرداری نظام یا سرداریت کا مسئلہ ہے۔ ان غیر فطری یا نام نہاد سردار میر و نوابوں کے وجود کا مسئلہ ہے جو ریاستی استحصال و استعماری عزائم و منصوبوں کو دوام دینے کےلئے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ بلوچوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کا مسئلہ ہے۔ ان کی آذادی سلب کرنے کا مسئلہ ہے۔ ان کو بلوچستان کے کھونے کھونے میں ریاستی فوج کی جانب سے پریشان کرنے کا مسئلہ ہے۔ اپنے حقوق مانگنے پر ان پر تشدد ہونے کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں بڑے بڑے منشیات کے ڈیلرز جو ریاستی پشت پناہی سے اپنے منشیات کے سودے اور اسمگلنگ کر رہے ہیں ان کے اس استثنیٰ و آذادی یا وجود کا مسئلہ ہے۔ ایسے کئی مسئلے وجود رکھتے ہیں جن کو بیان کرنے سے یہ چھوٹا سا تحریر کتاب کی شکل اختیار کرے گی۔
آپ مولانا! کیوں اصل مسئلوں کے بارے میں بات کرنے سے ڈر رہے ہیں؟ آپ کے ساتھ خدا ہے۔ اب خدا کی طرف سے دیے گئے ہزاروں لوگ ہیں جو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے باوجود آپ کس لئے اصل معاملات اور مسئلوں پر اپنے خیالات پیش کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہو؟ اصل مسئلوں کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہے؟ کس بنیاد پر وہ مظاہرے آپ کے علم و شعور میں ہونے کے باوجود بھی منہ سے نہیں نکل رہے؟ آپ پرامنی سے اپنے حقوق مانگنے کی بات کرتے ہو۔ جب سے اسکرین پہ مظاہرے کرتے نظر آرہے ہو یہی بات ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہم یعنی کہ آپ لوگ پرامنی سے اپنے حقوق لیں گے۔ میں پوچھتا ہوں آپ مولانا سے آیا یہ کل کے مسئلے ہیں؟ آیا یہ ہفتے یا مہینے پہلے کے ہیں؟ یا آیا یہ ایک دو سال سے چلتے مسئلے ہیں جو آپ پرامنی سے لینے کی بات کر رہے ہو؟ آپ کے خیال میں ہمارے آباؤ اجداد یا دادا نانا والوں نے پرامنی سے اپنے حقوق مانگے نہیں ہیں؟ ضرور مانگے ہیں۔ تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ ان کو پرامنی سے کیا ملا، کچھ نہیں۔ وہی مظلومیت، غلامی، لاچاری، بےبسی اب تک ہم میں چلتا آرہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے خواہ وہ اسلامی تاریخ ہو یا انسانی، کہ ایک ظالم یا استعمار کبھی آپ کو آپ کے حقوق پرامنی سے نہیں دیتا۔ انفرادی حوالے سے دو تین کو دیا جاتا ہے ان کو اپنا آلہ کار بنانے کیلئے، لیکن اجتماعی حوالے سے نہ استعمار جابر یا ظالم نے کبھی مظلوموں کو حقوق دیے ہیں نہ دینگے۔ رہی بات ہم بلوچ مظلوم قوم کی تو اگر اجتماعی حوالے سے ہمیں ہمارے حقوق دیے جاتے تو ہمارے کئی شخصیات نے پرامنی سے مزاحمت کرتے ہوئے چلے گئے ہیں اب تک دے چکے ہوتے۔
مولانا صاحب! اگر پرامنی سے کوئی ظالم، جابر یا استعمار حقوق اور آزادی دیتا تو رسول اللہ صلی نے کبھی جنگ نہیں کیا ہوتا۔ اگر اسلامی تاریخ کے صفحوں پر نظر دوڑائی جائے تو جب مسلمانوں یا رسول اللہ صلی پر ظالموں (مسلمان کے دشمن مشرکین و کفار) نے بہت زیادہ ظلم، ناانصافی و زیادتی کی تو رسول اللہ صلی کو تلوار (اسلحہ و ہتیھار) سے بہت نفرت ہونے کے باوجود بھی اللّٰہ کے حکم سے آپ نے ان ظلم و جبر، زیادتیوں و ناانصافیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ یہ نہیں کہ آپ نے کم پرامنی سے رہنے کی کوشش کی اور ان کو کم برداشت کیا، بلکہ بہت برداشت کرنے کے بعد آپ نے اخر کار جنگ کا راستہ اختیار کیا، کیونکہ یہ خدا کا حکم تھا وحی کہ زریعے کہ جب آپ پر کوئی ظلم و زیادتی کر رہا ہو، ناانصافی کر رہا ہو، آپ کے مال و جائیداد پر قبضہ کر رہا ہو تو آپ اس کے خلاف لڑو، جہاد کرو۔ اب چونکہ خدا یہ کہہ رہا ہے اور رسول اللہ صلی نے ظالم و جابر کے خلاف جنگ کی ہے تو مولانا آپ کس بنیاد پر ظالم و جابر سامراج و نوآبادکار استعمار ریاست پاکستان کے خلاف پرامنی کی بات کر رہے ہو؟ جب اس نے بندوق کے زور پر، جبری طور پر، ظالمانہ انداز میں، استعمار ہو کر آپ کو رکھا ہے، آپ کو مظلوم بنایا ہے تو آپ اس کے خلاف کیونکر پرامنی کی بات کر رہے ہو؟ اس پر پھول کیوں پھینک رہے ہو جو تم پر لاٹھیاں اور گولیاں برساتا آرہا ہے؟ مولانا صاحب، اگر یہ آپ کا انفرادی مسئلہ ہے، زاتی مسئلہ ہے، یا صرف گوادر کے پانی کا مسئلہ سمجھتے ہو تو کرو آپ بھہ پرامنی کی بات، دیکھتے ہیں کب تک آپ بھی دوسرے پرامن شخصیات کی طرح کتنا حقوق دلوا سکتے ہو۔
آپ باتیں تو بڑی بڑی کر رہے ہو، اور ماشاء اللہ ہزاروں لوگ بھی جمع کیا ہے جو آپ کے بھروسے اور امید پر جرت کر کے اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں، اور آپ نے بلوچوں کے ایک لاکھ کا اجتماع جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ہم دعا کرتے ہیں ایسا ہی ہو لیکن آیا آپ اتنی بڑی تعداد کو صرف ایک دو مسئلہ جیسے پانی یا ماہیگیروں کے حل کیلئے استعمال کروگے، یا اجتماعی طور پر بلوچ کے اصل مسئلوں کو حل کرنے کیلئے کوشاں ہونگے جو بلوچ قوم کیلئے مستقل ہونگے، ابدی حل ہونگے۔ جب دشمن یا مخالف فریق آپ کو آپ کے اس آشوب کیلئے تشدد سے جواب دے، آپ کو بندوق اور لاٹھیوں کے زور پر روکنے کی کوشش کرے تو پھر بھی آپ پر امن راستے کا انتخاب کروگے تو آپ نہ صرف اللہ کے حکم کو جھٹلاؤ گے بلکہ رسول اللہ صلی کی ظالم کے خلاف انتخاب کی ہوئی راستے کی بھی خلاف ورزی کروگے۔ میں نہ کارل مارکس کی بات کر رہا ہوں یہاں جس کا ظالم کے خلاف طریقہ و راستہ جنگ یا مسلح جدو جہد تھا، نہ میں لینن کی بات کر رہا ہوں، نہ میں ماؤزے تنگ، بھگت سنگھ، چے گویرا و فیڈل کاسترو کی بات کر رہا ہوں، اور نہ ہی میں یوسف عزیز مگسی، جنرل شیروف، نواب خیر بخش مری کی بات کر رہا ہوں۔ میں اللہ اور ہمارے پیارے نبی رسول اللہ صلی کی بات کر رہا ہوں، ان کے حکم اور طریقوں و انتخاب کی بات کر رہا ہوں۔
لگ بھگ 70 سالوں سے جو ہمارے (بلوچ قوم کے) اوپر جو ظلم و زیادتی اور ناانصافی ہو رہی ہے، جو نظام اور حالات ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے، جو استعمار ہم پر اپنے عزائم اور منصوبے چلاتا آرہا ہے، وہ سب آپ مولانا کیلئے اور ہر زی شعور، طبقہ فکر اور دانشور کیلئے واضح ہیں، تو آپ بجائے اس ظالم و جابر، سامراج و نوآبادکار، استعمار ریاست پاکستان کے خلاف جہاد کرنے کے، یا جنگ و جدو جہد کرنے کے، مزاحمت کرنے کے آپ پھر بھی پرامنی کی بات کررہے ہو تو یہ آپ کی ایمانداری، اخلاص اور آپ کے مذہبی (اسلامی) سیاسی، عقلی و جدلیاتی علم و شعور پہ سوالیہ نشان ہے۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہونگا کہ ہم (بلوچ قوم) آپ سے یہی امید رکھیں گے کہ آپ جو یہ بلوچوں کی ایک لاکھ کا مجموعہ جمع کرنے جا رہے ہیں اس تعداد کو اگر آپ بلوچ قوم کی آذادی و خودمختاری کیلئے نہیں تو دوسرے مسئلوں کے حل کےلئے ضرور کار آمد کریں گے۔ خاص طور پر لاپتہ افراد یا جبری گمشدگیوں کا مسئلہ۔ کیونکہ شرعی، انسانی یا قانونی و آئینی حوالے سے سب سے سنگین مسئلہ ہے جس کے حل ہونے یا خاتمے کا انسانیت سب سے پہلے تقاضا کرتا ہے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور امید یہی ہے کہ جب تک ظالم و استعمار سے جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل نہیں کرواتے، جب تک ہمارے پیارے، لخت جگر ظالم کے عقوبت خانوں سے لوٹ کر نہیں آتے تب تک آپ مولانا سمیت پوری ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کا مجموعہ نہیں بیٹھے گا، اپنے گھروں میں نہیں جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں