قبائلی تنازعات اور قومی ذمہ داریوں کے عنوان سے این ڈی پی کا سیمینار کا انعقاد

125

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بارکھان زون کی جانب سے ایک روزہ سیمنار بعنوان ” قبائلی تنازعات اور ہماری قومی ذمہ داریاں ” بمقام بارکھان لائبریری منعقد ہوا جس میں بلوچ تاریخ دان ڈاکٹر شاہ محمد مری، تونسہ شریف کے سیاسی و سماجی کارکن روف قیصرانی، تعلیم دوست اور ایشئین امریکن یوتھ انگیجمنٹ کمیونٹی لیڈر کے جناب عبدالقادر بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سنگت آصف بلوچ، این ڈی پی کے مزکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر جمیل بلوچ اور این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزر سنگت شاہزیب بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مقرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی تنازعات کے تاریخی پہلو دیکھیں تو ہمیشہ قبائلی تنازعات اور قبائلی ذمہ داریوں پر بحث مباحثہ کیا جاتا تھا لیکن یہ سیاسی شعور ہے کہ ہم قبائلی تنازعات اور قومی ذمہ داریوں پر مباحثے کا انعقاد کر رہے رہیں۔

مقررین نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم میں قبائلی نظام آج جس شکل میں موجود ہے تو یہ قبائلی شکل انگریزوں کی عطا کردہ ہے۔ اس سے پہلے بلوچ قوم کے تمام تمندار خود مل کر قبائلی سردار کا چناؤ کرتے تھے لیکن سنڈیمن کے لائے گئے نظام کے بدولت سرداری نظام قبضہ گیر کے مفادات کو جلا بخشتی آ رہی ہے۔ وہیں سردار جو ایک وقت میں بلوچ قومی مفاد کےلیے کام کرتے تھے سنڈیمنی نظام کے تحت حاکم کے مفاد کےلیے کام کرتے ہیں اور مفادات میں کسی قسم کے تضادات کے بنیاد پر حاکم ہمیشہ سرداروں کو بدلنے کی طاقت پر رکھتے ہیں۔

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہہوئے مزید کہا کہ سنڈیمنی نظام جو قبائلی ساخت میں سرائت کر گئی ہے اور سنڈیمنی پالیسیاں آج تک اسی طریقے سے چلتے آ رہے ہیں۔ اسی سنڈیمنی نظام نے قبائلی تنازعات کو جنم دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور آج تک یہ تضادات چلتے آ رہے ہیں۔ بلوچ قوم آج کے ایک تاریخی اور نو آبادیاتی دور سے گزر رہے ہیں اور نوآبادیاتی پالیسیاں بلوچ قوم کےلیے طویل المدتی طور پر نقصاندہ ہیں۔ اگر یہیں تضادات اسی طریقے سے چلتے رہے تو آنے والے وقتوں میں ہماری مثال بھی افریقیوں جیسی ہوگی جہاں روانڈا میں آزادی کے بعد بھی قبائل کے درمیان تنازعات جاری رہے اور سو دن کے اندر دس لاکھ لوگوں کا قتل ہوا۔ قبائلی تنازعات کے بدولت بلوچ قوم خود اپنی طاقت حاکم کے بجائے خود پر استعمال کر رہی ہے اور بلوچ قوم قبائلی تنازعات کے آڑ میں خود اپنی نسل کشی کر رہی ہے۔ لہذا ان قبائلی تنازعات نے نہایت ہی گھناؤنا شکل اختیار کی ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بطور سیاسی کارکن ان تنازعات پر مباحثہ کریں اور سیاسی جدوجہد برقرار رکھیں تاکہ آنے والے وقتوں میں اس قبائلی سوچ کو قومی شعور میں تبدیل کر سکیں۔

مقررین نے سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو کہا دنیا کے تمام ممالک جہاں کی زمین میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہاں کے قبائل مظلوم ہیں اور دنیا کی ہر غلام قوم کے قبیلوں کو دانستہ طور پر آپس میں لڑایا جاتا ہے جس کی واضح مثال سانحہ بواٹہ ہے جو کھیتران اور لغاری (ھدیانی) قبائل کے درمیان پیش آیا۔ یہ2 کلومیٹر کا ایریا جہاں پر یہ وقوعہ پیش آیا وہاں پر 4 چیک پوسٹیں ہیں اور اس ایریا میں ہر قسم کی منشیات بیچی اور خریدی جا سکتی ہے اور اسلحہ کا کاروبار بھی کئی سالوں سے چل رہا ھے تو اس وقوعہ کی اصل زمہ دار تو یہ چیک پوسٹوں والے ہیں جن کے بیچ سے یہ واقعہ ہوا۔

مقرین نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کوہ سلیمان جو سیاسی و معاشی طور پر بلوچستان کا پسماندہ علاقہ ہے اس خطے میں قومی سیاست ابھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو رہی تھی اور کچھ سالوں میں یہ قبائل اجتماعی قومی مفادات حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے لیکن ریاستی اداروں نے اس اجتماعی قومی مفادات کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایسی پالیسی بنائی تاکہ یہ قبائل ایک دوسرے کیساتھ ہونے کی بجائے اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف لگائیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ اس وقوعہ میں دونوں قبائل کے لوگوں کی آپس میں میٹنگز ہونی چاہئے اور قبائلی طریقے سے تحقیقات ہونی چاہئیے اور جو بھی فرد اس میں ملوث ہو اس کو اپنے قبیلے کی زمہ داری سے نکالنا چاہئے اور اس کو قانون کے حوالے کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ کوہ سلیمان کی قومی سیاسی پارٹیوں کو چاہئے اس ان مسائل کا حل نکالیں۔

مقررین نے کہا کہ نا صرف بارکھان بلکہ بلوچ قوم کے نوجونوں کو آگے آ کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قبائلی تنازعہ کو حل کرنے میں مدد کرنا چاہیے۔ اس طرح کےقبائلی جھگڑوں میں بلوچ قوم پہلے بھی کافی نقصان اٹھا چکی ہے۔ ہمیں دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس تنازع کو جلدی ختم کرنا ہوگا تاکہ مزید نقصان سے قوم کو بچایا جا سکے۔ سیمینار کے آخر میں این ڈی پی کے نمائندے نے تمام آئے ہوئے مہمانوں اور ناظرین کا شکریہ ادا کیا۔