بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے ہوشاب واقعے کے متاثرین کی ہر قسم کی مدد و کمک کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انصاف صرف نام کے رہ گیا ہے جبکہ جبر اور وہشت کے سائے تلے لوگ عدلیہ اور حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔
جبکہ بلوچستان میں آئین و قانون سے بالاتر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبر کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں اور آئے دن بلوچستان کے چپے چپے میں ناانصافی کی الگ مثالیں قائم کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں فورسز آئے دن کسی ماں کا چشم چراغ کو اُن سے چھین لیتے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ایسے مظالم سے لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ آئے دن کی جبر و وہشت کو دیکھ کر لوگ ذہینی اذیت میں مبتلا ہیں۔ بلوچستان بھر میں سیکورٹی فورسز کے جرائم رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ان تمام مظالم کے خلاف اور ذہنی اذیت سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی مزاحمت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہوشاب میں سیکورٹی فورسز نے بچوں کو گولہ باری کا نشانہ بناکر کر ظلم کی انتہا کر دی ہے اور مذکورہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا واقعہ نہیں صرف کیچ میں ہی سیکورٹی فورسز کی جانب سے اسی مہینے تیسرا واقعہ ہے مگر انصاف فراہم کرنے کے بدلے سیکورٹی فورسز اپنے جرائم میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے بلوچستان کو ایک اجتماعی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سانحہ ہوشاب واقعے کے متاثرہ خاندان نے تین دن تک تربت میں دھرنا دیا مگر حکومت اور انتظامیہ کے اہلکاروں کا رویہ انتہائی نازیبا اور ریاستی فورسز کے جرم کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے جو قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔ واقعے کے متاثرین جب تربت میں احتجاج سے مایوس ہوئے تو انہوں نے شال جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی شال میں موجود تمام بلوچوں سے اپیل کرتی ہے کہ ان کا ساتھ دیں اور کوئٹہ آمد پر انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اپنے گھروں سے نکلیں۔ستقبل میں ایسے سنگین جرائم کو روکنے کیلئے ہمیں ان کی مزاحمت میں ان کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔