سی ٹی ڈی مستونگ کاروائی میں جبری طور پر لاپتہ شخص کو قتل کیا گیا

1118

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک اور کاروائی جعلی نکلی، 22 اکتوبر کی رات سی ٹی ڈی نے مستونگ میں کاروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 9 افراد کو مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا جن میں سے ایک شخص کی شناخت پہلے سے جبری طور پر لاپتہ شخص کے نام سے ہوئی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نے اس حوالے سے تحقیقات کی تو خاندانی و علاقائی ذرائع سے معلوم ہوا کہ جعلی مقابلے میں مارے جانے والوں میں یار محمد شامل ہے۔

یار محمد ولد ڈاڈا خان بنیادی طور پر مارواڑ کا رہائشی تھی جو علاقے میں فوجی آپریشنوں سے متاثر ہوکر کوئٹہ منتقل ہوچکا ہے۔ یار محمد کو کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے 2016 میں مارچ کے مہینے میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

خاندانی ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ یار محمد کو رات 9 بجے کے قریب پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی۔

خیال رہے تین روز قبل ترجمان سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ مستونگ کے علاقے روشی میں محکمے نے آپریشن کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں 9 افراد مارے گئے جن کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور یونائیٹڈ بلوچستان آرمی سے تھا۔

یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی سی ٹی ڈی زیرحراست لوگوں کو اسی طرح قتل کرنے میں ملوث رہی ہے۔ مستونگ میں مارے جانے والے افراد دیگر افراد بھی بڑھے ہوئے بالوں، داڑھی اور حلیئے سے پہلے سے زیر حراست افراد لگتے ہیں جن کے سروں پر گولیاں ماری گئی۔

دوسری جانب سے لاپتہ افراد کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جبکہ لواحقین کو مذکورہ افراد کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں مل رہی ہے۔