بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سہیل بلوچ کے قتل کو ہم بلوچ قوم کی آواز کے ایک اہم باب کو خاموش کرنے اور بلوچ قوم کے ایک چست انسان کو قتل کرنا بلوچ قوم کے آواز کو دبانے کے مترادف سمجھتی ہے۔ سہیل بلوچ ایک غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان تھے اور محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کی دال روٹی چلاتے تھے۔ سہیل بلوچ وہ انسان تھے کہ جنہوں نے کبھی کسی ظلم کے خلاف گھٹنے نہیں ٹھیکے بلکہ ہر ظلم و جبر کے خلاف اپنی صدا بلند کی اور یہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں نے ان کے اس عمل کو نا پسندیدہ جانا اور بالآخر ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے ان کو قتل کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سہیل بلوچ 4 سال ریاستی عقوبت خانوں میں بھی گزار چکے ہیں اور ان 4 سالوں کی رہائی کے بعد بھی سہیل بلوچ خاموش نہ رہے اور ہر وقت کی طرح ہر ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور بانوک کریمہ بلوچ کے قتل کے خلاف بھی اپنی صدا بلند کی، جس کے نتیجے میں ان کو ریاستی اداروں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن یہ ڈرانا دھمکانا سہیل بلوچ کو خاموش نہ کر سکے اور بالآخر ریاست کے پاس آخری راستہ یہ تھا کہ وہ سہیل بلوچ کو خاموش کرائے اور وہی کیا گیا 4 دن پہلے سہیل بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے قتل کردیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ قتل بلوچ قوم کے ایک انسان کا نہیں ایک سوچ کا قتل ہے، یہ قتل ایک فکر کا قتل ہے لیکن یہ قتل کسی نظریے کا قتل نہیں کیونکہ کسی انسان کے مارنے سے اس کا نظریہ نہیں مرتا آج ایک سہیل کو مارا گیا کل اسی نظریے کے 100 سہیل پیدا ہونگے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تک بلوچ قوم متحد و یکجا نہیں ہوگی اس کو اسی طرح سے قتل و غارت، جبری گمشدگی، ظلم و جبر کا شکار بنایا جائے گا اور ہم اسی طرح سے مذمت پر مذمت کرتے رہیں گے۔
ترجمان نے کہا کہ ہم تمام بلوچ عوام سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ یکجا ہو کر اپنے آپ کو ایک بلوچ جان کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں اور حصوں میں نہ بٹیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب سے پہلے بلوچ ہیں اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ بعد کی بات ہے اور ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ بلوچ ہر وقت اپنے حقوق کے خلاف جدوجہد کرتا رہا ہے لیکن آج وہ بلوچ اپنے حقوق کے نہ ملنے پر اس قدر خاموش ہے یہ انتہائی افسردہ بات ہے۔