درد ملے، سکون ملے نہ ملے
تحریر:جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو تلخ نہیں ہم، ہر انسان تلخ نہیں ہوا کرتا۔ میرے اندر کی تلخی میری ناکامیوں کا خمیازہ بھی تو نہیں، میں ناکام ہوا بھی کب ہوں؟ کون ہے جو ناکام رہی ہوگی؟ ناکامی، کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اور پہلی سیڑھی چڑھے بغیر کوئی کیسے سیڑھی کے آخری سرے تک پہنچ سکتا ہے؟ آخری نا صحیح مگر درمیان میں واقع سیڑھیوں پر ایڑھی چوٹی کا زور لگاکر اوپر جانے کیلے بےتاب ہوں تاہم پہلی سیڑھی (ناکامی) اب یاد بھی نہیں آتی۔ وہ تو رحمتِ خداوندی لگنے لگتی ہے۔ ناکامی کوئی تلخی نہیں لاتی، ناکامیاں خوشیوں سے لبریز ہوتی ہے۔ ناکامی ہی وہ واحد شے ہے جس کے بعد خوشی خوشی اور کامیابی، کامیابی لگتی ہے۔
ناکامیاں سطحی طور پر پائے جانے والے چھلکے ہوتے ہیں جنہیں ہٹانے کے بعد خوشی کا بھر پور احساس انسان کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مگر اتنی تلخی آتی کہاں سے ہے؟ ناکامی نہیں تو پھر کن اغیار سے؟ کبھی اتنی تلخ، بیزار اور دلشکستہ ہوجا تا ہوں کہ خدا کی مقرر کردہ وقت سے پہلے موت کے آغوش میں سوجانے کو جی مچلتا ہے، خدا کی مرضی کے بغیر۔ اور پھر سوچتا ہوں کہ مرضیِ خدا کے بغیر تو پوری زندگی بیت چکی ہے کیوں نہ صرف ایک موت ہی اسی مالک کے مرضی کا چنا جائے! مگر پھر ان تلخیوں سے، پر اسرار اور عجیب کیفیات سے کیسے جان چھڑا لیا جائے؟ کیسے کسی کی دل آزاری کئے بغیر اسکی ہر غلطی سہا جائے؟ سہنا بھی تو غلطیوں کو ہی ہے مگر مجھ سمیت ہر شخص میں وہ مادہ پیدا کیو نہیں ہوتی؟ ہم میں بسی تلخیاں کیوں ہمیں ہی کھائے جارہے ہیں؟ لوگوں کا کیا وہ تو غلط کرکے، کچھ سن اور پھر بہت کچھ سنا کے اپنی راہ لیتے ہیں مگر ہم خود سے کیسے اور کہاں بھاگے؟ کیا ہر فرد اپنے اندر اتنی تلخیاں جمع کر چکا ہے کہ وہ اس دور میں اسے کم سے کم چین سے جینے نا دیں؟ ہر شخص پر سکون نہیں، ہر کسی کا کوئی مسئلہ ہے مگر پوچھنا چاہوں مسئلہ ہے یا تلخیاں، زہر بھری باتیں، یا انجان بے سکونی جو کسی کو سکون کی زندگی جینے نہیں دیتے۔ خدا بھی تو ایک عنصر ہے تلخیاں پیدا کرنے کا۔ خدا سے دوری خود ایک تلخ زندگی کا دوسرا نام ہے اور پھر خود خدا جہاں چاہے وہی لہجے، زبان، دل اور زندگی تلخیوں سے بھر دیتی ہے۔ کوئی پاس رہ کر لاحاصل رہے تو وہ شیرینی، مٹھاس اور نرمی کیسے پیدا ہونے دیگی۔
کوئی رگ وپہہ میں گردش کرتے ہوئے بھی آپ کو کوسوں دور نظر آئے اور پھر اچانک اتنی دور سے اسکی لمس، عنایتیں اور سب سے بڑھ کر اسکی موجودگی کو محسوس کرو تو وہ صرف اور صرف تلخیاں ہی نہیں بلکہ بیزاری، ترشی اور موت سے قریب تر ایک دنیا میں دھکیل دیگی جس سے نکلنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر دنیا میں رہ لینا۔
کہیں ایک دو حالات میں ظالم اور مظلوم میں فرق کرتے ہوئے مجھے بڑی پریشانی ہوئی کہ ظالم کون اور مظلوم کون! کوئی بہت پاس ہوکر بھی بہت دور، بے رخی کا ایک مجسمہ اور نا ملنے والی ایک پر اسرار شے بن جائے اسے ظالم کیونکر نا کہوں؟ خود کو مظلوم کیونکر جانوں کہ پاس نہیں بلکہ اندر سموئے ہوئے ذات کی لب و لہجہ، قول و قرار کی معیار پر کبھی پور نہیں اتر پایا؟ کیوں نا خود کو ظالم کہہ دوں؟ مگر کیوں؟ کسی کو اتنا چاہنے کے بعد کہ اسکی ہر بے رخی، دوری، کڑواہٹ کو پی کر، امتحان سمجھ کر ہر درد کو آنکھیں بند کرکے سہا ہو دوسری طرف وہ یہ سب کچھ میری کمزوری سمجھ کر مجھ پہ ہی وار کر بیٹھے، مجھے رلائیں اور خود لبوں پہ مسکان سجاکر میرا ذکر دوسری مخلوقات کے ساتھ کردیں! وہ روٹھے میں مناؤں، میں روٹھوں تو اسے منانے کیلئے خود روٹھنا پڑ جائے! تب بھی پہل ہم کریں اور ہم ہی شکست خوردہ، مغموم،اداس اور تڑپتے دل کے ساتھ اسے منائیں کہ کہی اس عزتِ ماآب کو کھو نا دیں! اس سب کے باوجود خود کو کیوں ظالموں کے فہرست میں سرِ فہرست ڈال لوں! شاید یہ بھی اس بےرخی سے انسیت ہے جس نے اسیری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
رہا سوال ظالم اور مظلوم کی تو یہ فیصلہ بھی انہی کے ہاتھوں لکھنے کو چھوڑ جاتے ہیں جو بہت انصاف سے فیصلہ کن گردانا جاتا ہے۔ دل میں اٹھی طوفان کی قسم، مظلوم ہوکر بھی انکی خاطر ظالم کہلوانے کو بند آنکھوں قبول کرلینے کا تہیہ کر چکا ہوں مگر عرض ہے کہ اندر سمائے ہوئے تلخیوں کی اٹھی طوفان کی کوئی ایسی معقول وجہ بتلایا جائے کہ تلخیاں، بےسکونی اور درد بھی تو سکون سے سہہ لوں۔ فقط اتنی گزارش ہے کہ شاعروں کے کلام میں سنی جانے والی سکون کی درد کو محسوس تو کرنے دیا جائے۔ یہی ایک اولین و آخرین ترجیحاتِ مظلوم ہے! درد تو ملیں سکون ملیں نہ ملیں۔ درد کے سوا بچا بھی کیا ہے؟ یوں کہہ دوں کہ۔۔۔
فقط، اک درد باقی ہے
فقط، ہم درد باقی ہے
تجھے جب بھی شکایت ہو
فقط یہ جان باقی ہے
اٹھا لینا۔۔۔۔
سزا دینا۔۔۔
بس اک مظلوم باقی ہے
یہی مظلوم باقی ہے
شکایت جب بھی ہو تجھ کو
منا لینگے۔۔۔
سستا لینگے۔۔۔
تجھے اپنا بنا لینگے
تم ہی کہتے تھے ہم سے نا
کہ جب ہم، ہم نا رہہ جائے
کہ جب تم، تم نہ رہہ جاؤ
بلا لینا۔۔۔
پناہ دینا۔۔۔
دغا دینا۔۔۔
مگر اپنا بنا لینا۔۔
وفا دینگے۔۔۔
ادا دینگے۔۔۔
دعا دینگے۔۔۔
جو تم چاہو
وہی دینگے۔۔۔
فقط اتنی گزارش ہے
مجھے اپنا بنا لینا
مجھے اپنا بنا لینا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں