بلوچ وومن فورم کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہوشاپ واقعہ بلوچستان کے حالات کی عکاسی کرتا ہے جہاں غریب عوام عرصہ دراز سے سیکیورٹی اداروں کے ظلم و زیاتی کا شکار ہیں۔ ہوشاپ واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے لواحقین کے بیانات بلوچستان کے سیاسی انتشار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ تین دنوں سے شہداء کے لواحقین گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی یا مذاکرات کی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی ہے۔
بلوچستان میں لوگوں کو اغواء کرنے کا تسلسل جاری ہے، 11 تایخ کو رات کے 9 بچے حاجی غلام نبی کے گھر سیٹلایٹ ٹاون بلال کالونی کوئٹہ میں سی ٹی ڈی نے بنا وارنٹ چھاپا مارا جس میں انکے بیٹے نوید بلوچ کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا، گھر کے خواتین پر تشدد کیا گیا اور انہیں زد و کوب کیا گیا جو کہ قانون کے مطابق شہری قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔
بلوچ وومن فورم کے ترجمان نے مزید کہا کہ بیساک چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ کے بھائی شاہ میر اور انکے کزن مرتضی زہری کو جبری اغواء کرکے ڈاکٹر صبیحہ کو ہراساں کرنا اور ان پر دباو ڈالنا کہ وہ اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے دور رہے، ایسے غیر قانونی عمل کا مقصد بلوچ خواتین کو سیاست سے دور رکھنے کی سازش ہے جس کی بلوچ وومن فورم شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ڈاکٹر صبیحہ سمیت بلوچستان کے تمام خواتین کے ہم قدم ہو کر اُن کے سیاسی، معاشرتی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی ۔
فورم کے ترجمان نے مزید کہا بلوچستان میں یہ واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں نہ حکومت مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بلوچ خواتین و بچوں کے قتل عام پر ایکشن لے رہے ہیں۔
بلوچ وومن فورم حکومت سے اپیل کی ہے کہ ہوشاپ واقعے کے لوحقین سمیت تمام لاپتہ افراد کا مسلہ سیاسی طریقے سے حل کرئے تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند ہوں ۔