سوراب سے لاپتہ دو افراد آصف ریکی اور الہ دین ریکی ولد شبیر احمد تاحال منظر عام پر نہیں آسکے، لواحقین نے جبری گمشدگی کے قوائف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کو جمع کرادی ہے۔
دونوں نوجوانوں کو رواں سال اپریل کے مہینے میں فورسز نے دیگر تین رشتہ داروں کے ہمراہ حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے تھے تاہم دیگر تین افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں جبکہ آصف اور الہ دین تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں –
آصف ریکی اور الہ دین ریکی بلوچستان مین لاپتہ افراد کے لئے جہدوجہد کرنے والے تںظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے بھتیجے ہیں –
لاپتہ ریکی برادران کے لواحقین کے مطابق انکے پیاروں کا کسی غیر قانونی عمل سے کوئی تعلق نہیں خفیہ ادارے ہمیں اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہے ہیں –
ماما قدیر بلوچ کے رشتہ داروں کی جبری گمشدگی کے رد عمل میں بلوچستان کے سیاسی تنظیموں نے اسے بلوچستان میں جاری اجتماعی سزا کا تسلسل قرار دیا ہے اور حکومت سے لاپتہ افراد کو منظرے عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے –
دریں اثناء گیارہ سال قبل خضدار سے جبری طور پر لاپتہ منیر میروانی ایڈوکیٹ کے بچوں نے والد کے بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے والد کو منظرے عام پر لاکر ہمیں انصاف فراہم کیا جائے –
17 جون 2010 کو خضدار سے لاپتہ منیر میروانی ایڈوکیٹ کے بچوں کا کہنا ہے کہ وہ والد کی طویل جبری گمشدگی کی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہے-