تاج بی بی کی موت – منظور بلوچ

442

تاج بی بی کی موت

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نفسا نفسی کا عالم ہے ، میرا دوست کہہ رہا تھا ، ساتھ ہی ساتھ وہ مجھے دلاسے دے رہا تھا کہ یار دنیا بدل چکی ہے ، ہر کوئی اپنے مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے ، ہاں میں یہ ماننے کیلئے بالکل تیار ہوں کہ وہ تمھارا چھوٹا سا کام جب سے کرونا کا آغاز ہوا تھا ، اب تک نہیں ہو چکا ہے ۔ میں سن رہا ہوں وہ بولے جا رہا ہے ، لوگ اب بہت بدل گئے ہیں ، اپنے یارانے بھی اب وہ نہیں رہے ، جب کبھی تھے ، جس کو دیکھئے ،ایک خاص پوزیشن کے حصول کیلئے لگا ہوا ہے ، ہر کسی کی اپنی ایک رام کہانی ہے ۔اس لئے تمھیں ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ لیکن میں نے اصرار بھرے لہجے میں کہا کہ میں ناراض نہیں ہوں کسی سے بھی نہیں ،لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لوگ بدل کیسے جاتے ہیں ؟ دوستی وغیرہ یہ سارے کا سارا جھوٹ ہے ۔ پھر ہم ان بے مقصد امیدوں کے ساتھ کیوں جیتے ہیں کہ وہ میرا دوست ہے ، مرے کسی مشکل میں میرے کام آئے گا ، پھر اس تکلف کو ختم کر دینا چاہیے ، کسی پر اعتماد یا امید نہیں رکھنی چاہیئے ، ،کیونکہ یہی بھروسہ اور توقع انسان کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔

اوہ میرے بھائی! میرا دوست کہنے لگا ، یار پورا معاشرہ بدل چکا ہے ۔ اب وہ ہمارا روایتی معاشرہ نہیں رہا ، لیکن تم بالکل تبدیل نہیں ہوئے ۔ بھائی میرے ، یہاں جب تک کسی کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے ، تب تک وہ آپ کا دوست رہتا ہے ، ملتا ہے ، پکنک پر آپ کے ساتھ آتا ہے ، آپ کی خدمت کرتا ہے ، آپ کی فضول قسم کی باتوں کو بھی سنتا ہے ، لیکن جیسے ہی اس کا مطلب نکل گیا ، تو پھر میں کون ۔۔۔ تو کون ۔۔

تو اس کامطلب ہے ، میں کہنے لگا ، کہ دوست ایک طرح کی سیڑھی ہوتے ہیں ، یا ایک کمیوڈیٹی ہوتے ہیں ، یا جیسے ایک ٹوتھ پیسٹ ، جو ضرورت پڑنے پر استعمال کی جاتی ہے ، اور ضرورت نہ پڑنے پر اسے پھینک دیا جاتا ہے ،جیسے کچرے والا ہر صبح اپنی ریڑھی لیکر آتا ہے ، دروازے پر دستک دیتا ہے ، آپ کے گھر کے کچرے اٹھاتا ہے اور بڑے سے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے ، اور اس کام کیلئے آپ سے پچاس یا سو روپے محتانہ وصول کرتا ہے ۔

ہاں ، ہاں ، بالکل ،دوست گرہ لگا رہا تھا ، وہ بتا رہا تھا کہ تم فلان دوست کو تو جانتے ہو ، جو آجکل ایک بڑا آدمی بن چکا ہے ، وہ ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑنے پر ترجمانی بھی کرتا ہے ، آج کل وہ بڑے ٹاٹھ کی زندگی کزار رہا ہے ، اس کے پاس گاڑیاں ہیں ، بنک بیلنس ہے ، ٹی وی اینکر پرسن اسے بلاتے ہیں ۔
ہاں ، جانتا ہوں ، میں نے سر ہلا کر جواب دیا ۔
وہ کچھ دنوں پہلے مجھ سے ملا تھا ، پتہ ہے اس نے دوستی کے بارے میں کیا بات کہی ۔
میں نے نفی میں سر ہلایا ۔
دوست گویا ہوا ، اس کا کہنا ہے کہ ہیگل کہتا ہے کہ جب آدمی کسی سیڑھی پر چڑھتا ہے ، تو بلندی کی طرف جاتے ہوئے وہ سیڑھی کے اسٹیپ کو توڑتا چلا جائے ، تاکہ کسی اور کو اس کی ہمسری کا موقع نہ مل سکے ۔
ہیگل ۔۔۔۔؟ میں نے بولے بغیر کہہ دیا ۔

دوست بتانے لگا ، میں نے کہا او کمینے آدمی ، تم اپنی کمینگی کیلئے ہیگل کو کیوں بدنام کر رہے ہو ، لیکن وہ کمینہ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ میں نے واقعی پڑھا ہے ، اور ہیگل یہی کہتا ہے اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں ۔ ہر روز ایک نئی بلندی اور ہر روز بلندی کیلئے آنے والا اسٹیپ توڑتا چلا رہا ہوں ۔
اچھا ۔۔۔۔ گویا میں بات سمجھ چکا تھا ۔
اس دوست نے چائے کی چسکی لی ، بسکٹ میری جانب بڑھائے ، اور کہا کہ آجکل وہ افغانستان میں ، جس دن سے طالبان آئے ہیں ، ایک تصویر بڑی وائرل ہو رہی ہے ۔
میں نے بے دھیانی سے پوچھا ، کونسی تصویر ۔
یار وہی ، اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ایک افغان خاتون بسکٹ کھارہی ہے ۔
تو۔۔۔۔ میں نے غیر حاضر دماغ ہو کر پوچھا ۔
دوست ہنستا چلا جا رہا تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کے کابل بلکہ پورے افغانستان پر قبضہ کے بعد وہاں بالکل امن ہے ، شانتی ہے ، عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا جا رہاہے ، وہ پڑھ سکتی ہیں ، البتہ وہ جاب نہیں کر سکتی ہیں ، لیکن ان کو ان کے سارے بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔

میں نے پوچھا ، یہ ساری باتیں تم نے کہاں سے اخذ کر لیں ۔
اس نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ، یار وہی بسکٹ والی تصویر اور ہمارا مین اسٹریم میڈیا ، کامران خان ، ہارون رشید ، وغیرہ ، ہمیں یہی تو بتایا جا رہا ہے ۔
لیکن ۔۔۔میں نے کہا کہ پاکستان کی وہ ساری سرخ مخلوق ، لبرل ، روشن خیال ، فیمنزم کے علمبردار ،اور ہاں وہ سول سوسائٹی کی موم بتیاں جلانے والی آنٹیاں آج کل کیوں نظر نہیں آرہی ہیں ، طالبان کے قبضے کے بعد ان کا سارا فلسفہ کہاں چلا گیا ۔

او کند ذہن ۔ میرے دوست نے مجھے کہا ، یہی تو میں تمھیں سمجھا رہاہوں ، یہ نظریہ وظریہ کچھ نہیں ہوتا ، یہ ممی ڈیڈی جیسے لوگوں ، اشرافیہ کے قصیدے پڑھنے والے دانش وروں کے چونچلے اور بے چارے لوگ ، خاص طور پر یونیورسٹیز کے پڑھنے والی نوجوان نسل ان کو بہت سنجیدہ لیتی ہے ۔

میں نے دوست کی جانب دیکھا اور کہا کہ ۔۔۔ میں اس موضوع پر گفتگو کیلئے نہیں آیا تھا ، اور نہ ہی مجھے تمھارا بھاشن سننا ہے ، اس سے بہتر ہے کہ میں ہر صبح اٹھ کر چائے کے کپ کے ساتھ جنگ کوئٹہ پڑھ لیا کروں ۔ اخبار میں اور کیا ہوتا ہے ۔جاوید چوہدری کے کالم ، وجاہت مسعود کے شہد ٹھرے آگہی کے قصے ، حامد میر کا غصہ ، اوریا مقبول اور لال ٹوپی والے جو نظریاتی سرحدوں کی حفاطت پر مامور ہیں ، عطاءالحق قاسمی کے مزاحیہ کالم ، اخبار میں مصالحہ بہت ہیں ۔
دوست نے کہا ، چھوڑو یار ، تم ابھی تک اخبار پڑھتے ہو ، ابھی سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، کتابیں کوئی نہیں پڑھتا اور تم بے وقوف آدمی اب بھی جنگ اخبار پڑھتے ہو ۔

میں نے اسے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ میں نے جنگ اخبار کی بات اس تناظر میں کہا ہی نہیں ، جس طرح سے تم سمجھ رہے ہو ۔
میرا دوست چائے کی چسکیاں لیکر محظوظ ہو رہا تھا ، میں نے کہا کہ یار میرا وہ چھوٹا سا مسئلہ ، جو تم ڈھیر سارے دوستوں ، افسروں ، جان پہچان والے لوگوں ، وزیروں کے قریبی لوگوں کے باوجود نہیں ہو رہا ہے ، اتنا سا کام تو لوگوں سے نہیں ہو سکتا ، اور تم مجھے افغانستان کے بھاشن دے رہے ہو ۔
دوست پھر سنجیدہ ہوگیا ، کہا کہ میں نے تمھیں بتا دیا ہے میرے عزیز دوست ، نفسا نفسی ۔۔۔۔
نفسا نفسی ، یہ میرے وقت یا میرے کسی مسئلہ پر کہاں سے وارد ہوتی ہے ۔
میرا دوست اور مزید سنجیدہ ہوکر وضاحتیں دینے لگا،
یار ایک تو تمہاری قسمت بھی شروع سے خراب ہے ، پھر یہ جو تمھارا چھوٹا سا کام ہے ، میں مانتا ہوں ، یہ چٹکی بجاتے ہو سکتا ہے ، لیکن کیا کیجئے اب وہ سارے لوگ جو کبھی ہمارے شاگرد ہوتے تھے ، اب سیٹوں پر آکر ان کی بولیاں بدل گئی ہیں ،
میں نے ہو کر کہا کہ پھر صاف طور پر کہو کہ تم لوگوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا ، اس سے بہتر تھا کہ میں ۔۔۔
اس نے جملہ پورے ہونے نہیں دیا ، ہنسنے کے انداز میں کہا ، ہو جائے گا ، تم چائے تو پی لو ، چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ، کر لیں گے کچھ ، اور ہاں ، ہمارا تمھارا مشترکہ دوست بھی لگا ہوا ہے ، اس نے وزیر سے بات کر لی ہے ، بس کام ہو جائے گا ، سیکرٹری نیا ہے ،اچھا آدمی ہے ، ہو جائے گا ۔

لیکن میں نے کہا کہ یار دو سالوں سے سبھی سے یہی باتیں سن رہا ہوں ، تم لوگوں کو شاید احساس نہیں ہو رہا کہ یہ چھوٹا سا کام میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ، اور اب تو کسی دوست کو کہنا ایسے ہی ہے جیسے آدمی خود اپنی ہاتھوں اپنی تذلیل کر رہا ہو۔
لیکن دوست اس بات کو سنی ان سنی کر چکا تھا ۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی ، ٹھیک ہے ، کام نہیں ہو رہا ہے نہیں ہونے دو صاف طور پر بتایا کیوں نہیں جاتا ، جس دوست سے بات کرتا ہوں وہ سینے پر ہاتھ لگا لیتا ہے ، اور جب رابطہ کرتا ہوں یا تو فون نہیں اٹھاتا ، یا پھر مسجز کا جواب نہیں دیتا ۔

دوست اب اس موضوع سے بور ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا ، اس نے کہا یار کچھ بلوچستان کی کہانی سناو¿ ۔ کیا چل رہا ہے ، جام حکومت کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ،
یار ہمارے ساتھ بڑی ناانصافیاں ہو رہی ہیں ، بیوروکریسی میں بھی ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، اور مجھے اپنا وہ پرانا دوست یاد آنے لگا ، جس نے اس معمولی کام پر اپنے شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا ، کہ تمھیں ( یعنی مجھے ) احساس ہی نہیں کہ وہ خود اپنے مسائل کے ہاتھوں کتنے ڈپریشن کا شکار ہے ، اس کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں ، کام میں اس کا دل نہیں لگتا ۔

اب ہماری گفتگو میں تیسرا دوست بھی شامل ہو چکا تھا ، اس کی دنیا ہماری دنیا سے الگ تھی ، اسے سیاست سے رتی بھر دلچسپی نہیں ، لیکن یاروں کا یار ہے وہ بتا رہا تھا کہ جہاں ، جس ادارے میں جاو¿ عجیب قسم کا انتشار نظر آتا ہے ، اور کوئٹہ شہر بھی اب وہ پرانا شہر نہیں رہا ، ٹریفک کا مسئلہ بہت شدید ہو چکا ہے ، اس نے بالکل موضوع کا رخ تبدیل کر دیا ۔

وہ کہنے لگا ، کیسے ہوگا ، روزانہ کی بنیادوں پر گاڑیوں ، رکشوں ، موٹر سائیکلوں ، ٹریکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، اور ان لاکھوں گاڑیوں کی وجہ سے کوئٹہ کی پارکنگ سڑکیں تو بالکل کم پڑ گئی ہیں ۔
دوسرا دوست کہنے لگا ، سرکار کو بھی تو کوئی پرواہ نہیں ،
میں نے کہا ، پرواہ کسی کو نہیں ، سب کی نظر یں پی ایس ڈی پی پر لگی ہیں ، سبھی کو اپنا اپنا حصہ چاہیئے ، وزیر ہو یا اپوزیشن ، سارے ٹھیکدار بن چکے ہیں ، اور اب وہ 2023 کے الیکشن کی تیاریوں کیلئے پیسے اکٹھا کر رہے ہیں ۔

میرے پہلے دوست نے کہا کہ تمھارے پہلے کے سارے تجزیے ، جو تم نے 2008 ، 2009 میں کئے تھے ، سارے غلط ثابت ہوئے ۔
میں نے کہا کہ میں کوئی پیشن گوئی کا ماسٹر تو نہیں ہوں ، جتنا سمجھ میں آتا ہے ، بول دیتا ہوں ، تم میری باتوں کو کل سے نہیں ، بلکہ آج سے ہی سنجیدہ مت لیا کرو ۔
گفتگو میں شامل ہونے والے دوسرے دوست نے کہا کہ اب کوئٹہ میں پراپرٹی لینا تو ایسا ہے ،جیسے آپ زمین کا ایک فٹ نہیں ، سونے کا ایک فٹ خرید رہے ہیں ۔

پہلا دوست کہہ رہا تھا کہ کب تک ھمارے ساتھ نا انصافیاں ہوتی رہیں گی ، جنکے پاس سفارش اور پیسہ ہے ، وہ اچھی اچھی پوسٹوں پر بیٹھ کر کمائی میں مصروف ہیں ۔
میں نے کہا ، ہاں یہ بات درست ہے
دوسرے دوست کے موبائل پر مسلسل کالیں آ رہی تھیں ، اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ یار یہ ایک سابق وزیر کا فون ہے ، اس کا کہیں پراپرٹی کا مسئلہ چل رہا ہے ، مری ناک میں دم کر رکھا ہے ، جتنا سمجھاتا ہوں ،وہ نہیں سمجھتا ، اب یہ دیکھو یہ اس کا پانچواں کال ہے ، وہ بھی ایک گھنٹے میں ۔
اور پھر وہ ہماری گفتگو چھوڑ کر کال سننے لگا ، اور میر صاحب کو تسلیاں دینے لگا ۔ کہ آپ کاکام ہو جائے گا ، لیکن دوسری جانب شاید میر صاحب کو اب بھی یقین نہیں کر رہا تھا ۔

پہلے دوست نے کہا کہ پتہ ہے کہ آجکل کیا چل رہا ہے ، اچھی اور منافع بخش وزارتوں کے بھی دام لگے ہوئے ہیں ، جو زیادہ پیسے دے سکتا ہے اس کو اچھے محکمے مل جاتے ہیں ، میں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ، مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں ولی خان نے کہا تھا کہ کسی کے پاس چار ارب روپے ہوں ، تو وہ پاکستان کا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے ۔
دوست کہنے لگا ، لیکن ڈالر اب 170 کا ہو چکا ہے ، گرانی میں بہت اضافہ ہو رہا ہے ، لیکن ہوگا کچھ بھی نہیں ۔
کیا مطلب ؟
یعنی سسٹم یونہی چلتا رہیگا ، آگے بڑھ کر اس نے ایک اور گرہ لگائی کہ سسٹم بہت مضبوط ہے ، ہم بے وقوف سسٹم کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ، میں خاموشی سے اس کی مدبرانہ گفتگو سن رہا تھا،
آگے بھی کچھ نہیں ہوگا ، جام حکومت بھی اپنی معیاد پوری کر لے گی، ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو وزارت اعظمی کیلئے مزید پانچ سال مل جائیں ۔

مجھے یاد آیا کہ آج ” کاشان “ کیفے سے نکلنے کے بعد میرے ایک دوست نے ایک تصویر دکھائی اور بتایا کہ یہ کل کا واقعہ ہے ، تصویر میں دو بچے نظر آرہے تھے ، اس کے بقول وہ مکران کے اسٹوڈنٹس ہیں ، کوئٹہ کے کسی کالج میں زیر تعلیم ہیں ، اس نے مجھے تصویر دکھائی کہ دو اسٹوڈنٹس یونیورسٹی کے مین گیٹ کے باہر قریب کی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ہیں ، اور جہاں وہ ریڑھیوں کی جگہ پر ، جہاں سستے پھل فروخت کئے جاتے ہیں ، وہاں وہ گزشتہ رات کے باسی ، اور گل سڑ کر خراب ہونے والے پھینکے گئے کیلے کھا رہے ہیں ، وہ کہہ رہا تھا کہ بڑی تکلیف دہ بات ہے ۔

لیکن میں نے جھوٹ موٹ کی حساسیت کا مظاہرہ کر رہا تھا ، یار مجھے ایسی تکلیف دہ تصویریں کیوں دکھاتے ہو ؟
اس نے مزید بتایا کہ میں نے ان بچوں کی تصویر لینا چاہی ، تو انہوں نے منع بھی نہیں کیا ، وہ پر اعتماد نظر آرہے تھے ، مرے بتانے پر انہوں نے کہا کہ وہ دو روز سے بھوکے تھے ، ان کو فٹ پاتھ پر یہ پھینکے گئے کیلے مل گئے ،اور بس ۔ وہ اپنی بھوک مٹا رہے ہیں ۔
میں نے کہا ، میں سمجھا نہیں
اس نے بتایا کہ وہ اس بات سے بے فکر یہ گلے سڑے کیلے کھا رہے تھے ، اور ان کو کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔
تو ۔۔۔۔
دوست نے بتایا کہ ایک بار جی کہا کہ یہ تصویریں ٹویٹر پر اپ لوڈ کروں ، پھر مجھے اچھا نہیں لگا کہ کسی کی بے کسی ، غربت اور لاچاری کی تشہیر کی جائے ۔ سچ بھی یہ ہے کہ ٹویٹر پر یہ تصویر آنے سے ان کا مقدر تو بدلنے والا نہیں تھا ، البتہ ان کیلئے سوسائٹی میں شاید یہ طعنہ بن جاتا ۔

میں نے کہا کہ تصویر کے چہرے بلر کر لیتے ، اب میں پھر اپنی ” خواہ مخواہ “ کی جھوٹی حساسیت کا اظہار کر رہا تھا ، جبکہ سچائی یہ تھی کہ مجھے یہ تصویر دیکھ کر ، اس کی سچی کہانی سن کر بھی زرا دیر کیلئے بھی دل میں کسی قسم کی تکلیف کا احساس نہیں ہو رہا تھا ۔ لیکن میں نے اپنی حساسیت کا اظہار بھی کرنا تھا ، اس لئے میں نے اس دوست کو کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ غلام نبی راہی کو پہلا دل کا دورہ کیسے پڑا ؟ اس کے استفسار سے قبل میں نے کہا کہ جب راہی صاحب 1989 میں انتقال کر گئے ، ان کی تعزیتی ریفرنس پر کوئٹہ ریڈیو کے سابق پشتو کے پروڈیوسر ابوالخیر زلاند کے مطابق ایک دن راہی صاحب ریڈیو کی جانب آرہے تھے ، کہ صبح ہی صبح ان کی نظر ریڈیو کے سامنے سے گزرنے والے حبیب نالہ پر پڑی ، جہاں کچھ بچے رات کے بچے کچے پھینکے جانے والے کھانے سے کچھ چن کر کھا رہے تھے ، وہ واقعتا حساس انسان تھے ، یہ دیکھ کر ان کو دل کا پہلادورہ پڑا ۔

اچھا ۔۔۔۔ میرے اسی دوست نے جس نے کل یہ تصویر بنائی تھی ، انتہائی حیرانگی سے کہا
اور پھر مجھے اشرف صاحب یاد آگئے ، اور ہاسٹل میں غریب بلوچ والدین کا غریب طالب علم ، حکومتی چھاپہ مار ٹیم ، جو ہاسٹل پر چھاپہ مارنے کی نیت سے گئی تھی ، وہاں ہاسٹل کے کمرے میں وہ غریب بلوچ بچہ پیاز اور روٹی کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا ۔
یہ بات اشرف صاحب کتنے دکھی ہو کر بیان کرتے ، وہ دکھی آدمی ، چونکہ ہم سے مختلف تھا ، چلا گیا ، اور اپنی یونیورسٹی کا کیلی گرافر منظور قمبرانی وہ بھی ہمارے معاشرے کا مختلف آدمی تھا ، وہ 22 ستمبر کو یونیورسٹی میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگئے ۔
کاشان میں بیٹھے سلیم ، بسم اللہ سمالانی کے ساتھ چائے پیتے ہوئے اقبال ناظر نے کہا کہ جو لوگ معاشرے سے زرا بھی مختلف ہوتے ہیں ، وہ وقت سے بہت پہلے گزر جاتے ہیں ۔

بات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اس بے حس معاشرے میں حساس لوگ لمبی عمریں نہیں پاتے ،ہمارے جیسے بے حس ہی جی سکتے ہیں ۔
ایسے میں دور سے جیسے ، قریب کے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ یار تم نے تاج بی بی کی شہادت پر کچھ لکھا ہے یا نہیں ۔
میں نے کہا کون تاج بی بی ؟ اچھا ، وہ نیا سانحہ ۔۔۔۔
میں نے خاموشی سے اپنے دل سے بہت ہی دھیمے انداز میں کہا کہ ایسے واقعات روز کا معمول ہیں ، سب کو سچائی معلوم ہے ، لہذا تاج بی بی پر لکھنے ، بولنے اور احتجاج کی کیا ضرورت ہے ؟
تاج بی بی ایک کہا نی کا محض عنوان ہی ہو سکتی ہے اور میں دوستوں کے ساتھ کاشان سے نکل پڑا ۔ اور اوپر آسمان پر بادلوں کو دیکھ کر خنکی کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ یار آج موسم بڑا خوشگوار ہے ۔ ظالم تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا ہم کاشان کے اندر گرمی میں بیٹھنے کی بجائے کاشان کی فٹ پاتھ پر کرسیاں ڈال کر چائے سے اور لطف اندوز ہو سکتے ، میرے دوست نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleخضدار سٹی تھانے پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے
Next articleنصیر آباد :ہانی بلوچ کی یاد میں شمع روشن کیے گئے
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔