بلوچ نوجوان نسل: عیش پرستی اور تصورات تجسس
تحریر:شعیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اقوام کی خوشحالی, معاشی, سماجی اور سیاسی ترقی نوجوانوں سے وابستہ ہے کیونکہ یہ طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہے لیکن اس کیلئے اولین شرط یہ ہے کہ ان کے درمیان قومی یکجہتی, قومی مفادات, قومی اسلوب اور قومی محبت کا ہونا لازمی ہے۔اگر قوم کے نوجوان ان سب سے اٹھ کر اپنی ذاتی اور عیش پرستی کیلے جدوجہد کریں تو اس قوم کے اوپر ایک طاقتور سا مراج کا قابض ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
بلوچ قوم جن مشکلات, آمریت اور سماجی مسائل کا شکار ہے اس کی اہم وجہ یہ ہیکہ بلوچ نوجوانوں کے درمیان عیش پرستی اور تصوراتی دنیا کے تجسس زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔مثالی دنیا میں انسان اپنے آپ کو تاریکی راتوں میں رکھتی ہے اور نہ ہی اپنے قسمت کو بدلنے کی سکت رکھتی ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ آج بیشتر بلوچ نوجوان اسی سوچ کی سیاہ میں اپنا زندگی گزار رہےہیں جہاں صرف مایوسی اور جہالت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ سوچ اور خواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن ایسے خواب و سوچ رکھو جن سے آپ زندگی کامقصد اخذ کر سکو۔عیش پرستی ہرگز زندگی کا مقصدنہیں ہے فقط یہ گمراہی, ذہنی غلامیت اور لاشعوری کے راہ پہ آپ کو گامزن کریگی۔کچھ اسی طرح کا المیہ ہمارے بلوچ نوجوانوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ ہمارے کچھ نوجوان کابلی گاڈی, کاٹن کی کپڑے اور نام کے ساتھ میر اور پرنس لکھ کر ایسے خوشی و فخر محسوس کرتےہیں گویا وہ دنیا کی عظیم و کامیاب لوگوں میں سے ہیں۔لیکن جب کوئی ان کے خیالات جاننے کی کوشش کرے تو یقینا تنگ سوچ اور عیش و آرائشی زندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔کوئی بڑے آدمی کی شخصیت کا اندازہ أس کے کپڑے, گاڈی, عالی شان گھر اور اشرافیہ ہونے سے نہیں لگایاجاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے معاشرے میں ذہنی غلام اگر آپ ڈھونڈینگے تو بہت ملیں گے۔
یہ لوگ کسی دنشوار, ادیب یا تعلیم یافتہ لوگوں کے کردار سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان سردار, میر, جاگیردار اور ٹھیکیدار سے متاثر ہوتے ہیں جو انہیں غلامی کے زنجیروں میں باندھے رہےہیں۔افسوس کی بات یہ ہیکہ سرداروں کیلے ہمارے کچھ بلوچ نوجوان بندوق اٹھانے اور جان قربان کرنے کیلے تیار ہیں لیکن قلم,کتاب اور قومی مفادات کے وقت پہ اندھے پن کا شکار ہوتےہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ میر, نواب اور سرداروں کے آغوش میں آسودگی ہے۔
اگر ترقی اور تہذیب یافتہ قوموں کاجائزہ لیں تو وہاں کے نوجوان طبقے کوعملی میدان میں رہنے کا جستجو زیادہ ہوتا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں نہیں سوچتےہیں بلکہ اجتماعی و مشترکہ بنیاد پہ اپنے قومی اسلوب اور ترقی کو ترجیح دیتےہیں۔ لیکن بلوچ نوجوانوں کے درمیان ایسا کوئی خیال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ مثالی دنیا اور خوف کے المیے میں زندگی بسر کرنے والوں کا مثال بھی ایسا ہے جیسا کوئی پرندہ بغیر پر کی أڑ نہیں سکتا ہے ۔
یقیناً خدا بھی أن اقوام کے روز مرہ حالت میں بہتری اور روشن ء خیالی لاتا ہے جو خود حقیقی دنیا میں رہنے کی جستجو کرتےہیں۔زوال اکثر ان قومیوں کا آمد ہے جن کے درمیان عیش پرستی اور افرادی ترجیحات جنم لیتے ہیں۔
المناک بات یہ ہیکہ کچھ لاشعور بلوچ نوجوانوں کے درمیان گروپ بندی بنا ہواہے۔ یہ کوئی تعلیمی گروپ بندی نہیں ہے بلکہ موٹر سائیکلز کے گروپ بنےہوۓہیں۔جن کا کام صرف جمعہ کے دن صاف کپڑے, مونچھوں کو تیل لگانا اور اپنے بلوچی شوز پہن کر سڑکوں پہ آوارہ گردی کرناہے اور کوئٹہ سے کولپور کیلے جوش و خروش سے روانہ ہوناہے۔
حیرت ہوتی ہے جب کوئی چیف بابا,بولانی,مینگل (1) اور دیگر ایسے گروپوں کو دیکھ کر جن کے وجہ سے مثبت سوچ تو پیدا نہیں ہورہی ہے البتہ ذہنی غلامیت اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے اور اپنے جوانی کو فضول و بےمعنی چیزوں میں ضائع کررہےہیں۔
جب قوم کے نوجوانوں کا سوچ ایسا ہوگا تو وہاں پہ بہتری لانا مشکل بن جاتا ہے۔خیر یہ تو ہمارا بےشعور طبقہ ہے لیکن ہمارے کچھ شعور یافتہ ان سے بھی عجیب ہیں۔
بات یہ نہیں کہ اکثر بلوچ نوجوان ان پڑھ ہیں بلکہ کچھ أن میں لکھنا اور پڑھنا بھی جانتےہیں مگر یہ علم نہیں رکھتے کہ اپنے ذاتی مفادات سے کیسے نکلیں اور اپنے قوم کے لوگوں کے درمیان علم و آگہی اور قومی اسلوب کو کیسے اجاگر کریں۔ اگر وہ لوگ ذہنی غلام کا شکار ہیں تو اس میں أن کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ وہ اتنا نہیں پڑھے جتنا ہمارے بیوروکریٹس پڑھےہیں۔لیکن پھر بھی ان بیوروکریٹس سے اچھے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ بلوچ افسروں کے پاس اختیارات اور اقتدار ہے اور نہ جانے کیوں اپنے آپ کو محکوم قوم کے نسبت حاکم و طاقتور سمجھتے ہیں۔
شاید یہ دنیا کا تقاضا ہے ہر کوئی خاموش اور لاچار قوم کے اوپر مسلط ہونا چاہتی ہے جبکہ یہ قوم خود دستبرداری کو اپنا مقدر سمجھتی ہے۔ شاہد آج بلوچستان جن مسائل,مشکلات,سماجی و سیاسی عدم استحکام اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، محض بلوچ نوجوان طبقے کا تصوراتی خیال اور عیش پرستی کے وجہ سے ہے۔
ہمارے قوم کی نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ عیش و آسائش کی زندگی کی جستجو کرنے کی بجائے اپنے قوم کو ہر شعبہ میں ترقی کی راہ پر گامزن کریں، تعلیم اور ادب کو أجاگر کرنا أن کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے کیونکہ اکیسوی صدی علم اور معلومات کا دور ہے۔وہ زمانہ نہیں رہا جہاں پہ قومیں وسیع علم کی بغیر بھی اپنی بقا برقرار رکھ سکتے تھے مگر آج ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یقینا ایک بہتر تعلیمی نظام ہی تبدیلی لاسکتی ہے چناچہ اس کی وجہ سے ہی قومی فلاح و بہبود أبھرتی ہے اور نوجوانوں کو اپنے فرائض کے بارے میں بخوبی علم ہوگا۔
آخری لیکن اہم بات یہ ہیکہ بلوچ نوجوان طبقہ کو انفرادیت سے نکل کر اجتماعی ترقی کیلے انقلابی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی شناخت,یکجتی اور سماجی امن کو قائم کریں نہ کے قومیت کے نام پہ تقسیم ہو۔ رسول حمزہ توف خوبصورتی سے اپنے کتاب “میرا داغستان” میں لکھتا ہے کہ ہر داغستانی کا ایک داغستان ہوتا ہے جو ہر چیز میں أسے نظر آتی ہے چاہے وہ پھول کی شکل میں ہو یا موضوعی شکل ہو اور یہاں تک کہ أسے باہر کے ملک میں بھی أس کا داغستان نظر آتا ہے۔ اگر اپنا قوم اور شہر انسان کو عزیز ہو تو أسے دنیا کے ہر چیز میں اپنے قوم کی خوشبو کا احساس ہوتاہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں