بلوچ مزاحمتی تحریک، احتجاج اور مزاحمت کا نفسیاتی پس منظر
تحریر: زینو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
احتجاج کسی مخصوص ناپسندیدہ رویے یا برتاؤ کے خلاف عوامی تحفظات اور تشویش کے اظہار کا نام ہے۔ احتجاج کرنا اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ایک آزمودہ اور قابلِ عمل طریقہ کار تصور کیا جاتا آ رہا ہے، مگر یہ تجزیہ کرنا بہت اہم ہے کہ احتجاج کے عمل کا ایک پس منظر ہے اور یاد رکھا جائے کہ تاریخی طور پر احتجاج جمہوریت کا پروردہ اور ایجاد ہے، جمہوری معاشروں میں جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، بالادست قوتوں کی غفلت، ظلم و ستم، ناانصافی اور غیر ذمہ دارویوں کے خلاف غم و غصّے اور عوامی طاقت کی عکّاسی کرتا ہے۔ جن معاشروں میں جمہوریت کا فقدان ہو، جہاں فسطائیت اور ڈکٹیٹرشپ کا راج ہو، جہاں جمہوری اقدار کی کوئی حیثیت نہ ہو، جہاں استحکام کے عمل میں عوامی کردار کو یکسر نظرانداز کیا جاتا ہو، جہاں ایک بالادست طبقہ طاقت کے ذریعے پالیسیاں تشکیل دیتا ہو اور انکے فیصلے عوام پر جبراً مسلط کیے جاتے ہوں، وہاں احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق مانگنا غیر معقول اور بالادست طبقے کے عزائم کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہو گا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو عوامی تحریکوں کے زریعے کئی قومیں اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس میں زار شاہی کے خلاف روسی عوام کا مزاحمت یا شاہ ایران کے خلاف عام ایرانی عوام کا انقلابی تحریک ہماری یاداشت میں تازہ ہوں گی، مگر ان اور ان جیسے اور تحریکوں سے ہمیں احتجاج اور مزاحمت کے درمیان واضح فرق کو دیکھنا ہو گا۔ مزاحمت عوامی اظہار کا وہ طریقہ کار ہے جس میں بالادست قوّت سے کسی قسم کا کوئی مفاہمت، مصلحت اور امیدیں وابسطہ نہیں ہوتے، بلکہ سرے سے اس نظام کے خلاف بغاوت کا مظہر ہوتا ہے جس میں غیر عوامی طاقت کو عوامی طاقت کے ذریعے زیر کر کے ایک نئے نظام کا نفاذ مقصود ہوتا ہے۔
تاریک میں ہمیں عوامی ردعمل مفاہمت اور مصلحت کے صورت میں بھی ملتا ہے، یعنی مزاحمت کے بجائے احتجاج کے ذریعے قوموں کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سکاٹلینڈ اور آئرلینڈ کا برطانوی سامراج کے غیر منصفانہ روئیے کے خلاف عوامی تحریک ہو یا جدید متحدہ امریکہ کے سیاہ فام باسیوں کا سفید فام حکمرانوں کے خلاف اپنے تحفظات پیش کرنا ہو یا ہندوستان میں ہندو مسلم تنازعات کا مصلحت کے ذریعے حل کر کے استحکام لانا ہو، ایسی صورتوں میں مفاہمت کے ذریعے عوامی تحریکوں کا کامیاب ہونا جمہوریت اور جمہوری اقداروں کے پائدار ہونے کو عیاں کرتی ہے اور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان معاشروں کا تشکیل کردہ عمرانی معاہدہ عملی طور پر فحال اور موضوں ہے۔
اب ہم جائزہ لیں گے پاکستان جیسے فاشسٹ ریاست کا، جس نے کبھی یہ ضرورت محسوس ہی نہیں کی کہ جمہوری اقدار کے ذریعے استحکام برقرار رکھا جائے چونکہ جنم سے ہی یہ ریاست وجودی بحران کا شکار رہا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ریاست کی تشکیل میں عوامی منشاء کے بجائے انگریز سامراج کا اس خطے میں ایک کثیر القومی ریاست تشکیل دیکر اپنے طویل المدتی سٹریٹجک مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ لہزا فطری طور پر شروع دن سے ہی اس ریاست نے محسوس کیا ہے کہ فسطائیت اور طاقت کے ذریعے اس ریاست میں رہنے والے اقوام پہ تسلط قائم کیا جائے کیونکہ اسکے علاوہ کوئی اور معقول طرز قابلِ عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، اور اسکے جواز وقتاً فوقتاً پاکستان کے مختصر سی تاریخ میں استحصال، بغاوت، ہم آہنگی کا فقدان، اس ریاست میں رہنے والے اقوام کے درمیان مسابقت اور عدم استحکام کی صورت میں ہمیں نظر آتا رہا ہے۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جس ریاست کی تشکیل میں عوام کا منشاء نہ ہو تو اس ریاست میں استحکام کے لیے فطری بنیادوں پر عوام کے کردار کو ترجیح نہیں دی جاتی بلکہ ایک مخصوص پاور ایلٹ کے ذریعے ریاست کی مشنری کو چلائی جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں عمرانی معاہدہ جنم ہی نہیں لے سکتا کیونکہ عمرانی معاہدہ ادارے اور طاقت کے محور کے تشکیل میں عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت سے تشکیل پاتا ہے۔ اور جن ریاستوں میں طاقت کا سرچشمہ براہِ راست عوام خود نہ ہو تو وہاں صرف خوف کے ذریعے ہی لوگوں پہ راج کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسی ریاستوں میں جمہوریت کا پنپتا بزاتِ خود غیر فطری ہوتا ہے بلکہ ایسے ریاست ہی غیر فطری ہوتے ہیں.۔ اور یہ کہ جن ریاستوں میں جمہوریت کے بجائے خوف کے زریعے لوگوں پہ راج کیا جائے تو وہاں احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرنا ایک غیر معقول عمل، وقت اور قوت کا زیاں اور فطری اصولوں کے عین منافی ہو گا، بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ایسی صورت میں مزاحمت کے بجائے احتجاج کے رستے کو اپنانا احساس غلامی کے جزبے سے محرومی کا مظہر ہے.
اب ہم زرا بلوچستان کی حالیہ صورت حال کا تجزیہ کریں، کیا پاکستان اپنے جبر اور خوف کے پالیسیوں سے بلوچ سماج کو نفسیاتی طور پر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا؟ جب بلوچ کو یہ احساس ہوا کہ وہ غلام ہیں تو ریاست کے خلاف ایک مضبوط حکمتِ عملی اور جزبے کے ساتھ مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور جہدِ مسسل کے اصولوں پر کارفرما ہو کر ریاستی غرور کر توڈ دیا اور ہر محاذ پر انکو شکست سے دوچار کر کے انکو باور کرایا کہ طاقت کے خلاف ہمارا جواب صرف اور صرف مزاحمت ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔
مگر یاد رکھا جائے کہ کسی بھی جنگ کا اہم ترین پہلو نفسیاتی ہوتا ہے۔ جب ریاست جنگ کے میدان میں اصولی بنیادوں پر شکست سے دوچار ہوا تو اسکے ردعمل میں عالمی جنگی قوانین کے برخلاف ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی حکمتِ عملی اپنا کر بلوچ سماج کو اندر سے کھوکلا کرنے کا منصوبہ تیار کیا، اور تب سے لیکر آج تک آئے دن عام بلوچ فرزند چائے وہ کسی بھی طبقے یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو، کو بلا تفریق اشعال انگیزی اور ریاستی دہستگردی کا نشانہ بناتا آ رہا ہے۔ اسکا مقصد صرف بلوچ کو بحثیت قوم کے خوف دلا کر اپنے ناجائز عزائم کو پورا کرنا ہے اور ہم پہ نفسیاتی وار کر کے مزاحمت کے راستے کو تنگ کرنا ہے۔
ِ خوف مزاحمت کو روکنے کا ایک نفسیاتی حربہ ضرور ہے مگر خوف میں آ کر مصلحت کے رستے کو اپنانا بلواسطہ طور پر اپنی غلامی کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ بحثیت قوم بیس سال کے اس مسلسل جنگ میں ہمیں بھرپور تجربہ ہو چکا ہے کہ ریاست ہمارے مزاحمتی تحریک کو زیر کرنے کے لیے کن کن حربوں کو استعمال کرتا آ رہا ہے۔ جب ریاست اخلاقی طور پر شکست خوردہ ہوتا ہے تو وہ بلاتفریق اندھے بچھو کی مانند کسی کو بھی ڈستا ہے اور اپنے روئیے سے ریاست ہم پہ واضح کر چکا ہے کہ وہ اخلاقی طور پر شکست خوردہ ہے، مگر اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اب ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے دھرے بیٹھے رہیں، بلکہ ہمیں ریاست کے نفسیاتی حربوں کو سمجھ کر زیادہ قوت اور شعوری پختگی کے ساتھ بوکھلاہے ہوئے ریاست کا سامنا کر کے گراسروٹ لیول تک بلوچ سماچ میں جنگی پیچیدگوں کا وضاحت کرنا ہو گا اور عام عوام تک جنگ کے نفسیاتی پہلوؤں کی وضاحت کر کے انکو ذہنی طور پر آگاہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ جنگ کے سب سے اہم اور فیصلہ کن پہلوؤں میں سے ایک ہے۔
اسی تناظر میں اب ہم ریاستی روئیے اور عوامی ردعمل کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح ریاست اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار عام عوام پر اپنے دبدبے اور نفسیاتی برتری کو منوانے کی کوشش کر کے کر رہی ہے۔ جنگی میدانوں اور بیرکوں سے فرار حاصل کر کے شہروں اور عوامی آبادی والے علاقوں میں اپنے مورچے بنا کر عوام کو تحفظ دیں، (جو قطعی انکا مقصود نہیں ہے) عوام کو اپنے تحفظ کا ضامن کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن جب مزاحمتکاروں نے آبادی والے علاقوں میں بھی گھس کر انکو اپنا حدف بنایا اور انکے اس حربے کو بھی ناکام بنایا تو ریاست نے انتہائی پستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی عسکری جعلسازیوں میں مزید پیچیدگیاں لائیں۔ عوام پر انتہائی سختگیر پالیسی اپنا کر اب نہ صرف انکے آمدورفت پر غیر ضروری روک کر انکا تذلیل کیا جاتا ہے (کہ کہاں جا رہے ہو، کہاں سے آ رہے ہو) بلکہ انکو وقفہ در وقفہ (بلوچ ہونے کے بنا پر) ٹارگٹ بھی کیا جاتا ہے یا ماورائے عدالت جبری طور پر اغوا کیا جاتا۔ ان سب کے باوجود بھی جب ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ ایک قدم مزید آگے بڑھ کر اب تو عوام کے معاشی سرگرمیوں پہ بھی قدغن لگاتے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچھے سمجھے منصوبے اور حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے اور ان سب کا مقصود بھی ہم پہ عیاں ہے کہ ایسا کر کے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ کہ اب ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ان حربوں سے کسی حد تک اپنے مذموم عزائم کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔
اگرچہ مزاحمتی تحریک کو کاونٹر کرنا ریاست اور اسکے اداروں کے لیے مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے مگر عوامی سطح پر انکے نفسیاتی حربے بھرپور کام کر رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کے لیے طویل عرصے تک انکی رہائی کے لیے کیمپ قائم کی جا چکی ہیں یا پاکستان کے مختلف شہروں میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین انہی اداروں سے انصاف کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں جو انکے اغواکار ہیں اور آئین پاکستان کا حوالہ دے کے انکی رہائی کی اپیل کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اغواء کرتے وقت انکے پاس کون سا دستاویز تھا، یا کس قانون کو خاطر میں لا کر انہوں نے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا، جس آئین یا قانون کی یادہانی ہم انہیں کرتے ہیں، اغواء کرتے وقت کیا وہ خود اس سے بے خبر تھے، یا اب انکو اسکا علم نہیں ہے؟ جب وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی پاسداری کیے بغیر ہمیں اغواء کرتے ہیں تو ہم کس امید سے انسے انصاف کی اپیل کرتے ہیں۔ اور کیونکر ہمارے سارے آہوزاری اور احتجاجوں کے باوجود انکے روئیوں میں زرا برابر بھی فرق نہیں آتا۔
عوامی ردعمل کا مزید اسطرح جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ جب ہمیں ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بلاجواز نہتے شہریوں پر فائزنگ کر کے انکو قتل کیا جاتا ہے، اس پالیسی پر پچھلے دو سالوں میں شدت لائی گئی ہے، شہید حیات کا واقعہ ہو، شہید بی بی کلثوم کا واقعہ ہو یا حالیہ دنوں کے واقعات ہوں، ان سب پر عوامی ردعمل احتجاج اور قاتلوں سے ہی انصاف کی مانگ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ انسے انصاف طلب کیا جاتا ہے جن کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود بھی احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں میں لوگ واقعات کی پسمنظر کو بیان کرنے سے ہچکچاتے ہیں، وہ قاتلوں کی نشاندہی کر کے اس نظام کو للکارنے سے ڈر اور خوف محسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور رسمی طور پر دبے لفظوں میں واقعات کا سرسری جائزہ لیکر سہمے ہوئے انداز میں ایک درمیانہ اور غیر معقول موقف اپنا کر اصل زمہ داران کو مبرّا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایسا کر کے درحقیقت ہم اس خوف کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پہ نافذ کیا گیا ہے اور ہم اپنے اس روئیے سے یہ ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ جی ہاں ہم اس منصوبے کی زد میں آ کر نفسیاتی طور پر خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ اور یہ سب کچھ دیکھ کر اس منصوبے کو تشکیل دینے والے اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کے ہم پہ قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھ ہمارے روب اور دبدبے سے یہ لوگ کس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی ایک دفعہ بھی سخت لفظوں کے ساتھ ہمیں تنبیہہ کرنے کے نہ رہے۔ وہ اس بات کا خوشی مناتے ہوں گے اور یقیناً وہ اپنے اس منصوبے کو کامیاب ہوتے دیکھ کر اسکی تسلسل کو برقرار رکھتے ہیں اور ہم بحیثیت قوم اگر مزاحمت کے بجائے احتجاج برائے احتجاج کا رستہ اپناتے رہیں تو الجھتے ہی رہیں گے۔ کیونکہ اصولی طور پر ایک غیر جمہوری ریاست میں ہمارا احتجاجی رویہ ہی انکی کامیابی کے لیے معاون ہو گا۔ اسلیے ہمیں انکے معاون ہونے کے بجائے ہر پلیٹفارم میں کھل کے مزاحمت کا رستہ اپنانا ہو گا۔ بصورت دیگر ہم رسمی احتجاجوں کے ذریعے دشمن کے پلڑے کو بھاری کر کے انکے مشکل کو آسان کرنے کا ساماں بنتے جائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں