بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو آج 4450 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے زونل صدر شکور بلوچ اور کابینہ کے ارکان شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہوکر کہا کہ بیسویں صدی کے آخری دہائی اور اکیسویں صدی کے آغاز پر ابھرنے والے حالیہ بلوچ پر امن جدوجہد اپنی شددت اہلیت و صلاحیت عشرت اور گہرائی کےحوالے سے ماضی سے کہیں بلندتر اور جاندار رہے ہیں۔ بلوچ شہادتوں کا سلسلہ بھی نئی اور منُفرد تاریخ رقم کررہی ہے۔ اس بار اتنی ہی قربانیاں بھی ہیں جس کے پیش نظریہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بلوچ شہداء قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وحشیانہ جبر و تشدد کے باوجود بلوچ پرامن جدوجہد کی پیش قدمی کرتے ہوئے بین الاقوامی سیاست میں ناقابل نظر انداز مقام پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ پرامن جدوجہد میں بلوچ شہداء اور لاپتہ اسیروں کی فہرست تیزی سے طویل ہورہی ہے اس فہرست میں شامل ہر بلوچ کی قربانی اپنی مثال آپ ہیں آج کوہستان مری، ڈیرہ بگٹی، مکران، جھالاوان سراوان، رخشان دیگر علاقوں میں شہید اور لاپتہ ہونے والے بلوچ نہ صرف تاریخ میں اعلی مقام پاچکے ہیں بلکہ کئی قربانیاں کی بدولت بلوچ پرامن جدوجہد بلوچ سماج کی رگ وپے میں سرائیت کر گئی ہے جس نے بلوچ سماج کا ایک بے خوف مزاج بنادیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ مقتدرہ قوتوں کی جانب سے پرامن جدوجہد کو فورسز کی کارروائیوں اور طاقت کے استعمال سے کچلنے میں ناکامی کے بعد ایک اور وحشیانہ طریقہ گھروں پر مارٹر گولے مار دیا، اٹھاو مار دو، پھینک دو اختیار کیا گیا ہے۔ جبر و تشدد کا بہ طرز عمل بلوچ سیاسی رہنماؤں کارکنوں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ان تمام بلوچوں کو چن چن کر جبری اغواء لاپتہ اور بدترین تشدد سے شہید کرنے اور مسخ لاشوں کو ویرانے میں پھینکنے پر استوار ہے جو بلوچ قومی پرامن جدوجہد سے وابستگی و ہمدردی رکتھے ہیں اس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں کئی بلوچوں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شہداء کی قطار طویل ہونے لگی، انسانی تاریخ میں ان عظیم شہداء کی دلیرانہ پرامن جدوجہد سے بھری پڑی ہے جہنو نے انقلابی عمل کو تیز تر کردیا ہے۔