بلوچستان کی کالونی جیسی حیثیت قبول نہیں- مولوی ہدایت الرحمان

304

جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری اور گوادر کو حق دو تحریک کے سربراہ مولوی ہدایت الرحمن نے منگل کے روز تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوادر سے 19 اگست کو حقوق، عزت اور سرزمین سے محبت کی تحریک شروع کی جس میں لوگوں کی –

انہوں نے کہا کہ اس تحریک کو پورے بلوچستان میں پھیلا کر اسلام آباد تک لے جائیں گے۔

ہم اس سرزمین کے باسی اور یہاں کی وسائل کے مالک ہیں ہمیں اپنی سرزمین پر تیسرے درجے کا شہری ہونا قبول نہیں، بلوچستان کو کالونی اور بلوچستان کے عوام کو غلام سمجھا گیا ہے اب کالونی جیسی حیثیت قبول نہیں، ہماری سرزمین وسائل سے مالامال ہے جسے لوٹا جارہا ہے-

انہوں نے کہا کہ ہماری معدنیات کو شیر مادر سمجھ کر بے دریغ لوٹا گیا، اس زمین سے نکلنے والی سوئی گیس اور سونے پر یہاں کے لوگوں کا حق نہیں، بارڈر پر لاکھوں لوگوں کا روزگار منسلک ہے مگر انہیں روزگار کا حق حاصل نہیں-

انکا کہنا تھا کہ 7 سو کلومیٹر قیمتی ساحل سے اللہ نے ہمیں نوازا مگر ماہیگیر کو اس میں ماہیگیری کا حق نہیں ہے، بارڈر پر رہنے والے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں، ایک منصوبہ کے تحت بلوچستان کے لوگوں کو فاقہ کشی کی جانب دھکیلا جارہا ہے، بارڈر جب آزادانہ طور پر کھلا تھا اور ہمارے سمندر میں حیاتیاتی نسل کشی نہیں ہورہی تھی تو لوگ خوش حال اور برسرِ روزگار تھے۔ ایک سازش کے تحت بارڈر اور سمندر میں سیکیورٹی کے نام پر کاروبار بند کرکے عوام کی تزلیل کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مظالم، جبر اور زیادتیوں کے خلاف حق دو تحریک پورے بلوچستان میں فروغ پارہی ہے، سمندر وسائل اور اپنی معدنیات کے مالک ہم خود ہیں، ان کے تحفظ کی خاطر سیاسی مزاحمت کے لیے تیار ہیں، پر امن جمہوری اور آئینی مزاحمت کرکے مقتدر قوتوں سے حق لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 31 اکتوبر کو تاریخی دھرنا ہوگا اور یہ تحریک اسلا آباد تک پھیلائیں گے، 29 اکتوبر کو تربت میں عوامی جرگہ ہوگا جبکہ 30 اکتوبر کو پنجگور میں عوامی جرگہ منعقد کریں گے-

ہمارا مطالبہ ہے کہ بارڈر پر ٹوکن سسٹم کا خاتمہ کرکے لوگوں بلا تکلیف اور رکاوٹ آزادانہ تجارت کی اجازت دی جائے، سمندر میں ماہیگیری پر عائد غیر آئینی پابندی دور کرکے ماہیگیروں کو بلا روک ٹوک اپنا کاروبار کرنے کی اجازت ملنی چاہیے، سیکیورٹی فورسز اپنا کام کریں اور عوام کے روزگار پر قدغن نہ لگائیں اگر ہمارے مطالبات سنجیدگی سے نہ مانے گئے تو بلوچستان بھر میں لوگوں کو منظم کرکے زیادتی اور حق تلفی کے خلاف احتجاج شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر امن، جمہوری اور آئینی انداز میں اپنا مقدمہ لڑیں گے جب تک اداروں کا رویہ صحیح نہیں ہوگا، آزادانہ تجارت، جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ سمند اور بارڈر پر آزادانہ تجارت کی اجازت نہیں ملے گی بلا خوف اور ڈر لوگوں کے پاس جاکر انہیں منظم اور آواز اٹھانے پر قائل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جماعت اسلامی سے جدا نہیں ان کے تعاون سے تحریک چلا رہے ہیں اس تحریک میں عوام اور نوجوان شامل ہیں اور یہ عوامی تحریک ہے، جماعت اسلامی کی پالیسی کے مطابق جدوجہد کررہا ہوں ، ابھی تک جماعت اسلامی نے میرے بیانیہ سے اختلاف نہیں رکھا نہ مجھے جواب طلب کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے ہم اس سرزمین کے باشندے ہیں اور سرزمین کے وفادار رہیں گے، بیوروکریسی کی غلامی اور تعبداری کسی طور قبول نہیں کریں گے جو سیاسی جماعتیں تحریک کی حمایت کے لیے ایک بیان نہیں دے سکتی ہیں وہ سرزمین کی دفاع کے لیے کیا قربانیاں دے سکتی ہیں البتہ اپنی تحریک کے دوران کسی سے دور نہیں رہیں گے بلکہ سیاسی جماعتوں سے مشورہ ضرور کریں گے۔

سانحہ ہوشاپ پر ضلعی انتظامیہ کی معطلی حیران کن ہے بلوچستان میں وزیر اعلی اور گورنر کی بات نہیں مانی جاتی ڈپٹی کمشنر اور اے سی کی کیا حیثیت ہے، جب تک انصاف کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے وعدہ وعید پر بھروسہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی بیورو کریسی کو دوران ملازمت اپنی زمین اور اپنے لوگوں کا وفادار رہنا چاہیے وہ شاہ کی وفاداری میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ ان کے لیے پشیمانی ہی باقی رہ جائے، ہماری بیوروکریسی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد قوم پرست بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جام حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اندرونی جنگ کا نتیجہ ہے، صوبائی حکومت مکمل ناکام ہے مگر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مراعات کی جنگ ہے یہ سب کچھ عوام کے مفادات کے لیے نہیں کی جارہی ہے۔