بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 4449 دن مکمل ہوگے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سی سی ممبر غلام نبی مری، انسانی حقوق کے جنرل سیکرٹری موسی بلوچ شامل تھے۔
وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچستان یوں تو گذشتہ 72 سالوں سے وفاق کی نوآبادیاتی سلوک اور ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے لیکن موجودہ فوجی حکمرانی کے آمرانہ دور میں بلوچستان کے محکوم عوام کے خلاف ریاستی کاروائیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے بلوچ پرامن جدوجہد سے سیاسی و نظریاتی طور پر وابستہ ہزاروں رہنماؤں کارکنوں کو ماورائے آئین گرفتار کرکے شہید کیا جارہا ہے اور انہیں ٹارچر سیلوں میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بدنام زمانہ قلی کیمپ کی ظالمانہ روایات کو تازہ کرکے ایک دفعہ پھر اندرون بلوچستان فرینٹر کور ایف سی اور دیگر مسلح فورسز اور ایجنسیوں کے ذریعے چادر ، چاردیواری کے روایات کی پامالی کرتے ہوئے گھروں کی تلاشی کے بہانے بلوچ عوام ِخواتین بچے بزرگوں کو خوف ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں حکمرانوں کی بالادستی کی تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچ قوم کے وسائل پر قبضہ کرنے اور ساحل بلوچستان پر روسرے قوتوں کی آباد کاری کے مذموم عزائم کار فرما ہیں۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ ان تمام قوانین کے باوجود جن سے عورت کو نجات حاصل ہوتی ہے وہ اب بھی گھریلو غلام ہے۔ سماج کے وجود میں آنے کے بعد سے عورت مردوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہے تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ عورت کو پیدا ہونے سے موت تک خوف احساس کمتری اور بے اعتمادی کا شکار بنایا جاتا رہا ہے۔خوف کا زہر اسکے رگ رگ میں سرائیت کرچکا ہے مگر جب تاریخ کی پہلی عورت نے اسکے خلاف بغاوت کا علم بلند کیئے رکھا ہے جسکی نوعیت انفرادی بھی رہی ہے اور اجتماعی بھی بہت چھوٹے پیمانے پر بھی اور تحریکوں کی صورت میں بھی اور آج بھی اس بغاوت میں شدت آتی جا رہی ہے اور اسکا رخ اور بھاو پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔