بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ تین اکتوبر کو یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں یونانی پارلیمنٹ کے سامنے بلوچستان میں پاکستانی مظالم، جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اور پوسٹرز اٹھائے جن میں لاپتہ افراد اور شہداء کی تصاویر آویزاں تھیں۔ مظاہرے میں پمفلٹ تقسیم کی گئی اور مقامی لوگوں کو پاکستانی مظالم کے بارے میں آگاہی دی گئی کہ بلوچستان میں اس جبر سے جوان، بوڑھے اور بچے کوئی محفوظ نہیں۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم یونان زون کے آرگنائزر قدیر ساگر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ اور مار کر ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ بلوچوں کو ہمیشہ کے لیے نوآبادی شکنجے میں رکھ سکیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے، پولیس، فوج اور عدالتیں بلوچ نسل کشی میں برابر شریک ہیں۔ اسی وجہ سے بلوچوں کو روزانہ کی بنیاد پر غیرقانونی طور پر بغیر کسی جرم کے اٹھاکر لاپتہ کیا جاتا ہے یا شہید کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں تاج بی بی اور رامز بلوچ کو بیدردی سے فائر کرکے شہید کیا گیا۔ موجودہ دور میں بلوچستان میں پانی مہنگا جبکہ بلوچ کا خون سستا ہوگیا ہے۔
قدیر ساگر نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا کو آگے آنا چاہیے اور بلوچ قوم کو ان مظالم سے چھٹکارا دلانا چاہیئے۔
انہوں نے کہاکہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے میں امن و خوشحالی کا واحد راستہ بلوچستان کی آزادی ہے۔
اس مظاہرے میں بی این ایم کارکناں کے علاوہ یونانی این جی اوز اور دوسری کمیونٹی کے لوگوں نے شرکت کی۔