بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی اور کزن کی باحفاظت بازیابی کے لیئے آج کوئٹہ میں بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں طلبا سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی.
احتجاجی ریلی سے مختلف طلبا تنظیموں کے رہنماؤں سمیت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے خطاب کیا.
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ جہاں شدید قسم کی انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پہ ہیں. جہاں مختلف ہتھکنڈوں سے عوامی سیاست کو دیوار سے لگایا گیا وہاں طلباء سیاست جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اس پہ قدغنیں عائد کی جارہی ہیں.
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے پہلے سے بھی خستہ حالی کا شکار ہیں. آئے روز طلباء اپنے بنیادی حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں وہیں دوسری طرف طلباء کیلئے تعلیمی ادارے اب خوف کی علامت بنتی جارہی ہیں. سینکڑوں سیکورٹی کی موجودگی اور خفیہ کیمروں کی موجودگی کے باوجود طلباء تعلیمی اداروں کے احاطے میں جبری گمشدگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں. ڈاکٹر صبیحہ بلوچ جو بلوچستان کے ایک منظم طلبا تنظیم کے چیرپرسن ہیں ان کا بھائی اور کزن اسی جبر کا نشانہ بنے ہیں.
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کسی بھی شخص کو یا اس کے خاندان کو سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پہ انتقامی سزا کا نشانہ بنانا سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے. ڈاکٹر صبیحہ بلوچ طلبا حقوق کی توانا آواز ہیں اور خاص کر بلوچستان جیسے پسماندہ سماج میں ایک خاتون کا یوں دلیرانہ رہنمائی کا کردار قابل تعریف ہے جبر کے اس ماحول میں وہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے خواتین کیلیے جدوجہد کی ایک زندہ علامت ہیں. لیکن پچھلے چار مہینے سے ڈاکٹر صبیحہ بلوچ سمیت ان کا خاندان انتہائی ازیت کا شکار ہیں. سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پہ اجتماعی سزا کی نہ یہ پہلی مثال ہے اور نہ ہی آخری ہوگی. لیکن اس عمل کیلیے اجتماعی جدوجہد وقت کی ضرورت ہے.
مقررین نے آخر میں ملک بھر کے طلبا تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبیحہ بلوچ کو اس ازیت سے نکالنے میں اپنی آواز کو بلند کریں. کیونکہ صبیحہ بلوچ جیسے کردار زندہ معاشروں کے زینت ہوتی ہیں. اور ان کو خاموش کرانے کی ہر عمل قابل مذمت ہے.