بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی چیئرپرسن صبیحہ بلوچ کے بھائیوں کی جبری طور پر گمشدگی کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں طالبعلموں نے شرکت کی ہے۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی عمل پر قدغن عائد کی جاچکی ہے۔ تمام تر سیاسی عمل کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے موجودہ منظر عامہ میں طلباء ہی متحرک سیاسی قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور طالب علم جمہوری طرز طریقہ اپناتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ طالب علموں کی جانب سے ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر ہمیشہ ہی سے کڑی پابندی اور رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش کی گئی اور بساک کے مرکزی چیئرپرسن کو سیاسی عمل سے کنارہ کش کرنے کےلیے بھی یہی حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ اِس اہم موڑ پر طلباء تنظیمیں بساک کے ساتھ ہیں اور اسیران کی بازیابی کےلیے ہر ممکن جدوجہد کا راہ اپنایا جائے گا۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سنٹرل کمیٹی ممبر رفیق بلوچ نے کہا کہ تنظیم ایسے کسی بھی حربہ جس میں مرکزی رہنما کو طاقت کے زور پر خاموش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو تنظیم اِس کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اس اہم موڑ پر تمام طلبا تنظیموں سے رابطے میں ہے اور اِس عمل کے خلاف کل براز سوموار طلبا تنظیموں کی جانب سے پریس کانفرنس کی جائے گی اور آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔