بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ کے بھائی اور کزن کی بازیابی کےلئے آرٹ کونسل سے لیکر کراچی پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں طلباء سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ہے۔
احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عہد حاضر میں طلبا سیاست پر مکمل طور پر قدغن عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طلباء سیاست کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور طالب علموں کو سیاست سے دور رکھنے کےلیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرپرسن صبیحہ بلوچ کے بھائی اور کزن کی جبری گمشدگی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کہیں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے تو دوسری جانب سیاسی کارکنان کو خاموش کرانے کےلئے مختلف ہتھنکڈے آزمائے جارہے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں کئی سوالات ابھر کر آتے ہیں کہ آیا ڈاکٹر صبیحہ نے وہ کونسی گناہ کی ہے جس کے بنا پر انہیں اجتماعی سزا دی جا رہی ہے،وہ کونسے عوامل ہیں جو ایک جمہوری سیاسی طریقہ کار پر یقین رکھنے والے کارکن کو اذیت میں مبتلق کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صبیحہ کے بھائی اور کزن کی جبری گمشدگی ایک غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل ہے جس کی پرزور مذمت کی جاتی ہے اور اس عمل کے خلاف ہر ذی شعور طبقے کو کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ ہمیشہ ہی مظلوموں کی آواز بنی رہی اور آج انہیں خاموش کرانے کےلئے ان کے خلاف ایک محاذ کھول دی گئی ہے۔